اب بہت ہو چکا، غزہ میں جنگ فوراً ختم کرو، ٹرمپ کی نیتن یاہو کو سخت تنبیہ

تازہ ترین خبروں اور تبصروں کیلئے ہمارا وٹس ایپ چینل جوائن کریں

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیلی وزیرِاعظم بنیامین نیتن یاہو پر زور دیا ہے کہ وہ غزہ پر جاری جنگ کو فوری طور پر ختم کریں۔ اسرائیلی میڈیا کے مطابق پیر کے روز دونوں رہنماؤں کے درمیان ایک فون کال میں ٹرمپ نے واضح الفاظ میں کہا: "میں چاہتا ہوں کہ تم یہ جنگ اب ختم کرو۔”

رپورٹس کے مطابق یہ بیان کسی امریکی صدر کی جانب سے اسرائیل کے لیے غیر معمولی سخت مؤقف کی نمائندگی کرتا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ٹرمپ نے نیتن یاہو کو خبردار کیا کہ جنگ کا جاری رہنا نہ صرف اسرائیلی قیدیوں کے تبادلے کی راہ میں رکاوٹ ہے بلکہ ایران اور سعودی عرب کے ساتھ ممکنہ سفارتی پیش رفت بھی اس سے متاثر ہو سکتی ہے۔

latest urdu news

ٹرمپ نے مزید کہا: "یہ صرف وائٹ ہاؤس کی کوئی اندرونی ڈیل نہیں، بلکہ یہ دونوں (قیدیوں کا تبادلہ اور علاقائی امن) ممکن ہیں۔ جنگ اپنی توانائی کھو چکی ہے، اب اسے ختم ہونا چاہیے۔”

ٹرمپ کے اس نئے بیانیے کو امریکی پالیسی میں ممکنہ تبدیلی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ مبصرین کے مطابق ابھی یہ واضح نہیں کہ ٹرمپ کا یہ دباؤ صرف علامتی ہے یا واقعی اسرائیلی پالیسی پر اثر ڈالنے کی سنجیدہ کوشش۔

خبر رساں ادارے اکسیوس کے مطابق، ٹرمپ نے ایران پر حملے کے کسی بھی منصوبے کو مؤخر کرنے پر بھی زور دیا۔ ان کا کہنا تھا: "میں نے مذاکرات ترک نہیں کیے، ایرانی ردعمل شدید ہو سکتا ہے لیکن وہ مکمل دروازے بند نہیں کرے گا۔”

نیتن یاہو نے حسبِ روایت اپنی دفاعی حکمتِ عملی کا دفاع کیا اور کہا کہ اسرائیل کو فوجی دباؤ برقرار رکھنا چاہیے۔ تاہم، ٹرمپ نے اصرار کیا: "میں اب بھی ایک بڑی ڈیل تک پہنچ سکتا ہوں، اس لیے حملے کا آپشن فی الحال ہٹا دو۔”

اسی دن ایران نے دعویٰ کیا کہ اس کے پاس اسرائیل کی خفیہ جوہری و عسکری دستاویزات موجود ہیں، اور خبردار کیا کہ کسی بھی ممکنہ حملے کی صورت میں وہ اسرائیلی تنصیبات کو نشانہ بنائے گا۔ ایرانی وزارتِ خارجہ نے اعلان کیا کہ امریکا کے ساتھ چھٹے دور کے جوہری مذاکرات 15 جون کو مسقط، عمان میں ہوں گے۔

واضح رہے کہ ٹرمپ نے مئی میں انکشاف کیا تھا کہ وہ نیتن یاہو کو پہلے ہی واشنگٹن کی ایران سے ممکنہ ڈیل کے بارے میں آگاہ کر چکے ہیں اور فوجی جارحیت سے گریز کرنے کی ہدایت بھی دے چکے ہیں۔

ٹرمپ کی یہ تازہ ترین مداخلت ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب اسرائیل اور حماس کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کے لیے ایک ممکنہ معاہدے کی خبریں زیرِ گردش ہیں۔ اسرائیلی حکومت کے مطابق غزہ میں 56 اسرائیلی قیدی موجود ہیں جن میں سے صرف 20 کے زندہ ہونے کی امید ہے، جبکہ اسرائیلی جیلوں میں 10,400 سے زائد فلسطینی قید ہیں، جن میں اکثریت بغیر کسی مقدمے کے برسوں سے قید ہے۔

حماس کا مؤقف ہے کہ وہ تمام یرغمالیوں کو جنگ کے خاتمے، اسرائیلی انخلاء اور فلسطینی قیدیوں کی رہائی کے بدلے رہا کرنے کو تیار ہے، مگر نیتن یاہو کی حکومت مسلسل سخت شرائط عائد کر رہی ہے جن میں غزہ پر دوبارہ قبضہ اور فلسطینی مزاحمتی گروہوں کا ہتھیار ڈالنا شامل ہیں۔

اسرائیلی حزبِ اختلاف اور قیدیوں کے اہلِ خانہ نے نیتن یاہو پر الزام لگایا ہے کہ وہ جنگ کو جان بوجھ کر طول دے رہے ہیں تاکہ دائیں بازو کے اتحادیوں کو خوش رکھا جا سکے اور عالمی فوجداری عدالت میں جاری مقدمات سے خود کو بچا سکیں۔

یاد رہے کہ 7 اکتوبر 2023 سے جاری اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں اب تک 182,000 سے زائد فلسطینی شہید یا زخمی ہو چکے ہیں، جن میں اکثریت عورتوں اور بچوں کی ہے۔ لاکھوں بے گھر، ہزاروں لاپتہ اور غزہ قحط کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔

یہ جنگ اقوام متحدہ کی قراردادوں، بین الاقوامی عدالتِ انصاف کے جنگ بندی احکامات، اور عالمی انسانی ضمیر کو مسلسل نظر انداز کرتے ہوئے جاری ہے — جبکہ امریکا اور اسرائیل، دونوں، اب بھی خود کو انسانی اقدار کا علمبردار قرار دیتے ہیں۔

شیئر کریں:

ہمیں فالو کریں

frontpage hit counter