امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کی الاسکا میں ہونے والی ملاقات جہاں عالمی سطح پر اہم سفارتی لمحہ سمجھی گئی، وہیں ایک خاص منظر نے سوشل میڈیا پر نئی بحث چھیڑ دی ہے: آیا امریکی صدر نے روسی ہم منصب کے استقبال کے دوران طاقت کا مظاہرہ کیا، یا یہ محض روایتی پروٹوکول کا حصہ تھا؟
ملاقات کے دوران جب صدر پیوٹن امریکی سرزمین پر پہنچے، تو ریڈ کارپٹ پر ان کے استقبال کے موقع پر امریکی فضائیہ کے جنگی طیارے فضا میں نمودار ہوئے۔ حیرت انگیز طور پر ان طیاروں میں امریکا کا جدید ترین B-2 اسٹیلتھ بمبار بھی شامل تھا، جو عام حالات میں محض جنگی مشقوں یا حساس آپریشنز کے دوران دکھائی دیتا ہے۔
B-2 بمبار کی پرواز طاقت کا پیغام یا خیرمقدمی روایت؟
بین الاقوامی دفاعی تجزیہ کاروں کے مطابق، ایسے طیارے کسی بھی ملاقات کے دوران فضائی نگرانی یا سلامتی کے پیش نظر استعمال کیے جا سکتے ہیں، مگر B-2 بمبار کی موجودگی غیرمعمولی ہے۔ اس جدید ترین اسٹیلتھ بمبار کو ماضی میں ایران کی جوہری تنصیبات پر حملوں کے دوران استعمال کیا گیا تھا، جس کی وجہ سے اس کی موجودگی کو صرف "استقبال” کا حصہ قرار دینا کئی حلقوں کے لیے قابلِ قبول نہیں۔
سوشل میڈیا پر ردعمل
سوشل میڈیا صارفین اس لمحے کی ویڈیوز اور تصاویر بڑے پیمانے پر شیئر کر رہے ہیں۔ کچھ صارفین کا کہنا ہے کہ یہ ایک "روایتی فوجی سلامی” تھی، جیسا کہ اکثر اعلیٰ سطحی شخصیات کے استقبال کے موقع پر دیکھا جاتا ہے۔ جبکہ کئی دیگر افراد اور مبصرین اسے امریکی عسکری برتری کا علامتی مظاہرہ قرار دے رہے ہیں خاص طور پر ایسے وقت میں جب روس اور امریکا یوکرین جنگ جیسے حساس مسئلے پر بات چیت کر رہے ہیں۔
حساس جغرافیائی ماحول میں ایک طاقتور اشارہ؟
یہ منظر ایک ایسے وقت میں پیش آیا ہے جب دنیا کی دو بڑی طاقتیں یوکرین جنگ، مشرقِ وسطیٰ کی کشیدگی، اور عالمی سیکیورٹی چیلنجز پر گفتگو کے لیے سر جوڑ رہی تھیں۔ بعض تجزیہ کاروں کے نزدیک B-2 بمبار کی موجودگی ایک خاموش مگر مضبوط پیغام ہو سکتی ہے کہ امریکا اپنی عسکری طاقت کے اظہار سے پیچھے نہیں ہٹے گا چاہے ملاقات کتنی ہی دوستانہ کیوں نہ ہو۔
سرکاری وضاحت کا انتظار
تاحال وائٹ ہاؤس یا پینٹاگون کی جانب سے اس پر کوئی باضابطہ وضاحت سامنے نہیں آئی۔ نہ ہی یہ بتایا گیا ہے کہ B-2 بمبار کی پرواز پہلے سے طے شدہ پروٹوکول کا حصہ تھی یا کسی مخصوص حکمتِ عملی کے تحت کی گئی۔