امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے درمیان الاسکا کے جوائنٹ بیس ایلمینڈورف رچرڈسن (JBER) پر ہونے والی طویل اور اہم ملاقات میں تعلقات کی برف ضرور پگھلی، مگر یوکرین جنگ کے خاتمے کے لیے کسی باضابطہ جنگ بندی یا معاہدے کا اعلان نہ ہو سکا۔
دونوں رہنما جمعہ کے روز کچھ لمحوں کے وقفے سے امریکی ریاست الاسکا پہنچے۔ صدر ٹرمپ نے صدر پیوٹن کا استقبال سرخ قالین پر خود کیا اور خوشگوار انداز میں مصافحہ کے بعد انہیں اپنی صدارتی لیموزین میں ملاقات کے مقام تک لے گئے، جہاں گاڑی میں دونوں کی ون آن ون گفتگو بھی ہوئی۔
چار گھنٹے طویل ملاقات، لیکن جنگ بندی پر اتفاق نہیں
ملاقات تقریباً چار گھنٹے جاری رہی، جس میں دونوں صدور کے ساتھ وزرائے خارجہ اور اعلیٰ سطحی حکام بھی شریک تھے۔ اگرچہ دونوں رہنماؤں نے بات چیت کو "تعمیری” قرار دیا، تاہم یوکرین میں فوری جنگ بندی پر کوئی باضابطہ معاہدہ یا اعلامیہ سامنے نہیں آیا۔
ملاقات کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس میں صدر پیوٹن نے کہا کہ وہ یوکرینی عوام کو "بھائیوں” کی طرح سمجھتے ہیں اور جنگ کی موجودہ صورتحال کو "سانحہ” قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ روس یوکرین کی سکیورٹی یقینی بنانے اور امن کے لیے تیار ہے، لیکن مسئلہ کی جڑ تک پہنچے بغیر پائیدار حل ممکن نہیں
صدر ٹرمپ نے مذاکرات کو مثبت قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ جلد یوکرینی صدر زیلنسکی اور نیٹو رہنماؤں سے اس مسئلے پر مشاورت کریں گے۔ انہوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ اگرچہ جنگ بندی پر اتفاق نہیں ہو سکا، مگر مستقبل میں کسی ممکنہ سمجھوتے کی امید موجود ہے۔
ٹرمپ کا پیوٹن کے استقبال میں طاقت کا مظاہرہ یا صرف روایتی پروٹوکول؟
ان کا کہنا تھا کہ "جس قدر یوکرین کو امن میں دلچسپی ہے، پیوٹن بھی اسی قدر سنجیدہ ہیں”۔ انہوں نے روسی صدر کی جانب سے ماسکو میں اگلی ملاقات کی دعوت پر خوشی کا اظہار کیا اور کہا کہ "یہ ممکن ہے، اور میں اس پر غور کروں گا۔”
پیوٹن: اگر 2022 میں ٹرمپ صدر ہوتے تو جنگ نہ ہوتی
صدر پیوٹن نے پریس کانفرنس میں کہا کہ اگر 2022 میں ڈونلڈ ٹرمپ امریکی صدر ہوتے تو شاید یوکرین جنگ کی نوبت ہی نہ آتی۔ انہوں نے مزید کہا کہ دونوں ممالک کے تعلقات سرد جنگ کے بعد نچلی ترین سطح پر ہیں، لیکن روس یوکرین تنازع کے پُرامن اور دیرپا حل میں دلچسپی رکھتا ہے۔
انہوں نے اس امید کا اظہار بھی کیا کہ یورپی ممالک اس عمل میں رکاوٹیں کھڑی نہیں کریں گے۔
زیلنسکی کا محتاط ردعمل
ملاقات سے قبل یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی نے ردعمل میں کہا کہ پیوٹن کی طرف سے جنگ روکنے کا کوئی عملی اشارہ نہیں دیا گیا اور یوکرین پر حملے بدستور جاری ہیں۔ انہوں نے اس امکان کا اظہار کیا کہ سہ فریقی ملاقات (امریکا، روس، یوکرین) ہی مؤثر حل کی جانب قدم ہو سکتی ہے۔
نتیجہ: سفارتی برف پگھلی، مگر امن کا سفر ابھی باقی ہے
یہ ملاقات دونوں رہنماؤں کے درمیان ایک اہم پیش رفت ضرور تھی، جس نے مستقبل میں یوکرین تنازع کے حل کی راہ میں مکالمے کی بنیاد رکھ دی ہے، لیکن فوری جنگ بندی کے لیے ابھی مزید سفارتی کوششیں درکار ہیں۔ دونوں فریقین آئندہ ملاقات پر آمادگی ظاہر کر چکے ہیں، جو ممکنہ طور پر ماسکو میں ہو سکتی ہے۔