ٹرمپ انتظامیہ نے ہارورڈ یونیورسٹی کے بین الاقوامی طلبا کو داخلہ دینے کا اختیار معطل کر دیا ہے، جس سے امریکہ کی اس تاریخی اور باوقار تعلیمی ادارے اور حکومت کے درمیان تناؤ مزید بڑھ گیا ہے۔
امریکی ہوم لینڈ سکیورٹی کی سکریٹری، کرسٹی نوم، نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر اعلان کیا کہ یہ قدم ہارورڈ یونیورسٹی کی "قانونی تقاضوں کی عدم تعمیل” کے باعث اٹھایا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ تمام امریکی یونیورسٹیوں کے لیے ایک سخت انتباہ ہے۔
ہارورڈ یونیورسٹی نے اس فیصلے پر شدید ردعمل دیتے ہوئے اسے "غیر قانونی” اور "انتقامی کارروائی” قرار دیا۔ یونیورسٹی کے بیان میں کہا گیا کہ وہ دنیا بھر سے آنے والے اپنے بین الاقوامی طلبا اور سکالرز کی حمایت جاری رکھے گی، کیونکہ یہ افراد ادارے اور ملک دونوں کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ یہ اقدام نہ صرف ہارورڈ کی تعلیمی اور تحقیقی سرگرمیوں کے لیے نقصان دہ ہے بلکہ اس سے قومی مفاد کو بھی خطرہ لاحق ہے۔ یونیورسٹی نے کمیونٹی کے ساتھ مشاورت کا عمل تیز کرنے کا اعلان کیا ہے تاکہ اس بحران سے نمٹا جا سکے۔
یہ پابندی ہارورڈ میں زیر تعلیم ہزاروں غیر ملکی طلبا کو متاثر کر سکتی ہے۔ یونیورسٹی کے مطابق پچھلے تعلیمی سال میں 6,700 سے زائد بین الاقوامی طلبا ہارورڈ میں زیر تعلیم تھے، جو کل طلبا کا تقریباً 27 فیصد بنتے ہیں۔