ٹرمپ اور ایلون مسک آمنے سامنے، ڈیپورٹ کیے جانے کی بات

تازہ ترین خبروں اور تبصروں کیلئے ہمارا وٹس ایپ چینل جوائن کریں

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور دنیا کے امیر ترین شخص ایلون مسک کے درمیان سیاسی کشیدگی عروج پر پہنچ گئی ہے۔ ریپبلکن ٹیکس بل پر اختلافات نے معاملے کو اس حد تک پہنچا دیا ہے کہ ٹرمپ نے مسک کو امریکا سے نکالنے کا عندیہ دے دیا ہے۔

فلوریڈا میں صحافیوں سے گفتگو کے دوران جب ٹرمپ سے سوال کیا گیا کہ کیا وہ ایلون مسک کو ٹیکس پالیسی کی مخالفت پر ملک بدر کر سکتے ہیں، تو صدر کا جواب تھا: "مجھے نہیں پتا، ہم اسے دیکھیں گے۔” اس مبہم بیان نے سیاسی حلقوں میں نئی بحث چھیڑ دی ہے۔

latest urdu news

ایلون مسک، جو جنوبی افریقہ میں پیدا ہوئے اور امریکا میں شہرت و دولت کی بلندیوں تک پہنچے، ریپبلکن پارٹی کے مجوزہ ٹیکس بل کے شدید مخالف ہیں۔ اس بل کے تحت الیکٹرک گاڑیوں کی خریداری پر ملنے والا 7500 ڈالر کا کنزیومر کریڈٹ ختم ہونے کا امکان ہے، جو ٹیسلا جیسی کمپنیوں کے لیے بڑا دھچکا تصور کیا جا رہا ہے۔

مسک نے حالیہ بیانات میں ریپبلکن پارٹی کو "خنزیر” سے تشبیہ دی اور عندیہ دیا ہے کہ وہ ایک نئی سیاسی جماعت قائم کرنے پر غور کر رہے ہیں۔ اس بیان کے بعد سے سیاسی فضا مزید کشیدہ ہو گئی ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم "ٹروتھ سوشل” پر بھی ایلون مسک پر تنقید کے نشتر برسائے۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ ایلون مسک نے امریکی تاریخ میں سب سے زیادہ سرکاری سبسڈی حاصل کی، اور اگر یہ مالی امداد نہ ہوتی تو "انہیں اپنی دکان بند کر کے جنوبی افریقہ واپس جانا پڑتا۔”

ٹرمپ نے طنزیہ انداز میں کہا کہ "نہ راکٹ بنتے، نہ سیٹلائٹ، نہ الیکٹرک گاڑیاں تیار ہوتیں، اور ہمارا ملک اربوں ڈالر بچا لیتا۔” انہوں نے اشارہ دیا کہ حکومت کو "ڈپارٹمنٹ آف گورنمنٹ ایکسپینڈیچر (DOGE)” کے ذریعے تمام سبسڈی معاملات پر نظرثانی کرنی چاہیے۔

دوسری جانب ایلون مسک کا کہنا ہے کہ وہ "خون کے آخری قطرے تک امریکا کے لیے لڑیں گے” اور یہ ثابت کریں گے کہ امریکا واقعی ایک آزاد اور مواقعوں سے بھرپور ملک ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ٹیکس بل اگر منظور ہوا تو وہ نیا سیاسی پلیٹ فارم متعارف کرانے سے گریز نہیں کریں گے۔

شیئر کریں:

ہمیں فالو کریں

frontpage hit counter