تھائی لینڈ اور کمبوڈیا کے درمیان سرحدی کشیدگی ایک بار پھر خطرناک موڑ پر پہنچ گئی ہے، جہاں تھائی فضائیہ نے متنازع علاقوں میں کمبوڈین فوجی ٹھکانوں کو نشانہ بنایا ہے۔ تازہ جھڑپوں کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات ایک نئے بحران میں داخل ہو گئے ہیں، جس کے باعث خطے میں عدم استحکام کے خدشات بڑھ گئے ہیں۔
تھائی فوج نے الزام لگایا ہے کہ کمبوڈین فورسز نے جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے فائرنگ کی، جس کے نتیجے میں مشرقی صوبے اوبون رتھچاتھانی میں جھڑپوں کے دوران ایک تھائی اہلکار ہلاک اور چار زخمی ہوئے۔ فوجی حکام کے مطابق فائرنگ کے جواب میں تھائی فضائیہ نے کمبوڈین اہداف پر کارروائی کی اور متعدد مقامات کو نشانہ بنایا۔
کمبوڈیا کی وزارتِ دفاع نے تصدیق کی کہ علی الصبح دو مختلف مقامات پر تھائی فوج نے حملے کیے، تاہم اُن کے مطابق کمبوڈین فورسز نے صورتحال کو مزید نہ بگڑنے دینے کے لیے جوابی حملے سے گریز کیا۔ اس کے باوجود کمبوڈین حکام نے تھائی لینڈ کو جھڑپوں کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ سرحدی اشتعال انگیزی مسلسل بڑھ رہی ہے۔
تھائی فوج نے مزید دعویٰ کیا ہے کہ کمبوڈیا کی جانب سے ’’بی ایم 21‘‘ راکٹ شہری آبادی کی طرف پھینکے گئے، تاہم کسی جانی نقصان کی اطلاع نہیں ملی۔ دوسری جانب کمبوڈیا کے سابق وزیراعظم اور موجودہ وزیراعظم کے والد ہُن سین نے فوج کو تحمل کا مظاہرہ کرنے کی ہدایت دیتے ہوئے تھائی فوج کو صورتحال خراب کرنے کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔
یہ تصادم اس جنگ بندی کے خاتمے کے بعد سامنے آیا ہے، جو جولائی میں پانچ روزہ خونریز لڑائی کے بعد ہوئی تھی۔ اس معاہدے میں ملائیشیا کے وزیراعظم انور ابراہیم اور سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ثالثی کا کردار ادا کیا تھا، جبکہ بعد ازاں اکتوبر میں کوالالمپور میں اس کے توسیع شدہ فریم ورک پر بھی دستخط کیے گئے تھے۔
جولائی کی جھڑپوں میں 48 افراد ہلاک جبکہ تین لاکھ سے زائد لوگ بے گھر ہوئے تھے۔ گزشتہ ماہ تھائی فوج نے بارودی سرنگ دھماکے میں ایک اہلکار کے زخمی ہونے کے بعد جنگ بندی پر عمل روکنے کا اعلان کیا تھا۔
