روس نے اعلان کیا ہے کہ اب وہ درمیانے اور کم فاصلے کے میزائلوں پر عائد پابندیوں کا پابند نہیں رہا، امریکا اور نیٹو کے اقدامات کو ذمہ دار قرار دے دیا۔
روس نے بین الاقوامی ہتھیاروں کے کنٹرول سے متعلق ایک بڑے فیصلے میں واضح کر دیا ہے کہ وہ اب زمین سے درمیانے اور کم فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک اور کروز میزائلوں کی تیاری، جانچ اور تعیناتی پر کسی قسم کی پابندی کا پابند نہیں رہا۔
یہ اقدام اُس خود ساختہ ضبط پر مکمل دستبرداری کی علامت ہے جو روس نے 1987 میں طے پانے والے انٹرمیڈیٹ رینج نیوکلیئر فورسز (INF) معاہدے کی روشنی میں اپنایا تھا۔
روسی وزارتِ خارجہ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ امریکا اور نیٹو کی جانب سے معاہدے کی مسلسل خلاف ورزی اور مذاکرات سے انکار کے بعد ماسکو کے پاس اب اس کی پاسداری کا کوئی اخلاقی یا عملی جواز نہیں بچا۔ بیان میں واضح کیا گیا کہ واشنگٹن کو متعدد مرتبہ متنبہ کیا گیا، مگر اس کے باوجود امریکا یورپ، ایشیا اور بحرالکاہل میں ممنوعہ میزائل تعینات کرنے کی تیاری میں مصروف رہا۔
صدر ٹرمپ کا روس کے قریب دو جوہری آبدوزیں تعینات کرنے کا فیصلہ
یاد رہے کہ INF معاہدہ 1987 میں سابق سوویت یونین کے صدر میخائل گورباچوف اور امریکی صدر رونالڈ ریگن کے درمیان طے پایا تھا، جس کے تحت 500 سے 5,500 کلومیٹر فاصلے تک مار کرنے والے زمین سے داغے جانے والے میزائلوں کی تیاری، جانچ اور تنصیب پر مکمل پابندی لگائی گئی تھی۔
روس کا دعویٰ ہے کہ امریکا نے 2019 میں اس معاہدے سے یکطرفہ دستبرداری اختیار کر لی، جس کے بعد واشنگٹن نے ان میزائلوں کی تیاری جاری رکھی اور بعض کو مشقوں کے لیے فلپائن، ڈنمارک اور دیگر حساس مقامات پر منتقل بھی کیا۔
روسی وزارتِ خارجہ کے مطابق اب روسی قیادت اس بات پر غور کرے گی کہ کن جوابی اقدامات کو اختیار کیا جائے، اور یہ فیصلہ مکمل طور پر مغربی ممالک کے میزائلوں کی تعیناتی، ان کی شدت، اور عالمی اسٹریٹیجک توازن کی موجودہ صورتِ حال پر منحصر ہوگا۔
یاد رہے کہ INF معاہدے کا خاتمہ عالمی اسلحہ کنٹرول کے نظام کو ایک اور دھچکا تصور کیا جا رہا ہے، جس کے باعث یورپ اور ایشیا میں نئی میزائل دوڑ شروع ہونے کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔