پیرس: فرانس کی عدالت نے ریٹائرڈ سرجن جوئیل لی سکوارنیک کو بچوں سمیت 299 مریضوں سے جنسی زیادتی کے جرم میں 20 سال قید کی سزا سنا دی ہے۔ یہ مقدمہ فرانس کی تاریخ کا سب سے بڑا جنسی جرائم کا کیس قرار دیا جا رہا ہے۔
عدالت نے جوئیل لی سکوارنیک کو اس کے 25 سالہ کیریئر کے دوران 299 مریضوں، جن میں بڑی تعداد بچوں کی تھی، کے ساتھ جنسی زیادتی یا حملے کے الزامات میں قصوروار قرار دیتے ہوئے یہ تاریخی سزا دی ہے، جسے فرانسیسی عدالتی نظام میں جنسی جرائم کے حوالے سے ایک اہم سنگِ میل سمجھا جا رہا ہے۔
بین الاقوامی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق، یہ مقدمہ ایسے وقت سامنے آیا ہے جب فرانس میں جنسی جرائم کے خلاف شعور، بیداری اور احتساب کی فضا پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط ہو چکی ہے۔ عدالت کو بتایا گیا کہ لی سکوارنیک پہلے ہی 15 سال کی سزا کاٹ رہا ہے، جو اسے ایک پڑوسی بچی، اپنی دو بھانجیوں اور ایک چار سالہ مریضہ کے ساتھ زیادتی کے جرم میں سنائی گئی تھی۔
متاثرہ افراد کے اہل خانہ اور عوامی حلقوں میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے کہ 2005 میں بچوں کی فحش تصاویر رکھنے کے جرم میں سزا پانے کے باوجود اسے دوبارہ سرکاری اسپتالوں میں کام کرنے کی اجازت دی گئی، جس کے باعث اس کے جرائم کا سلسلہ جاری رہا۔
2017 میں ایک چھ سالہ بچی کے ساتھ زیادتی کے الزام میں دوبارہ گرفتاری کے وقت پولیس نے اس کے قبضے سے ایسی ڈائریاں برآمد کیں جن میں اس نے دو دہائیوں سے زائد عرصے کے اپنے جنسی جرائم کی تفصیلات درج کی ہوئی تھیں۔ مزید برآمد شدہ اشیاء میں بچوں کا فحش مواد، جنسی گڑیا اور دیگر قابلِ اعتراض سامان شامل تھا۔
یہ مقدمہ فرانس میں بچوں سے جنسی زیادتی کے خلاف ایک سنگ میل سمجھا جاتا ہے، جس نے ملک بھر میں نظامِ احتساب اور حفاظتی قوانین کی کمزوریوں کو بے نقاب کیا ہے۔ اس کے بعد عوامی دباؤ مزید بڑھ چکا ہے کہ بچوں کو ایسے درندہ صفت افراد سے محفوظ رکھنے کے لیے قانون سازی اور نگرانی کے نظام کو فوری طور پر مضبوط بنایا جائے۔
دوسری جانب غیر ملکی میڈیا کے مطابق نیتن یاہو نے ایک تفصیلی تین گھنٹے طویل ٹی وی انٹرویو کے دوران فلسطینی ریاست کے قیام کی حمایت پر فرانس کو آڑے ہاتھوں لیا، انہوں نے کہا کہ فرانس اسرائیل کو کمزور دیکھنا چاہتا ہے، جبکہ اسے مغربی جمہوری ممالک کی صف میں کھڑے ہو کر اسرائیل کی حمایت کرنی چاہیے تھی۔