تھائی لینڈ کے فضائی حملے، کمبوڈیا پر راکٹ فائرنگ کے الزامات، دونوں ممالک کے درمیان ایک صدی پرانا سرحدی تنازع پھر شدت اختیار کر گیا، اقوام متحدہ سے مداخلت کی اپیل
تھائی لینڈ اور کمبوڈیا کے درمیان سرحدی تنازع نے جمعرات کو خطرناک رخ اختیار کر لیا، جب تھائی فضائیہ نے کمبوڈین اہداف کو نشانہ بنایا اور کمبوڈیا پر راکٹ حملوں کا الزام عائد کیا۔ دونوں ممالک کے درمیان حالیہ جھڑپوں میں کم از کم 11 تھائی شہری ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں ایک 8 سالہ بچہ بھی شامل ہے، جبکہ ایک فوجی کی بھی ہلاکت کی تصدیق کی گئی ہے۔
تھائی حکام کے مطابق، کمبوڈین افواج نے تھائی علاقے میں راکٹ اور توپ خانے سے حملے کیے، جبکہ کمبوڈیا کی جانب سے بھی فائرنگ کی شروعات کا الزام تھائی لینڈ پر لگایا گیا ہے۔
سرحدی کشیدگی کی جڑیں 817 کلومیٹر طویل سرحد کے ایک صدی پرانے تنازع میں ہیں، جو فرانسیسی دورِ نوآبادیات سے چلی آ رہی ہے۔
تازہ ترین کشیدگی کا آغاز مئی میں ہوا تھا، جب متنازع علاقے میں دونوں ممالک کی افواج کے درمیان جھڑپ ہوئی، جس میں ایک کمبوڈین فوجی ہلاک ہو گیا۔ اس کے بعد سے تجارتی و سفارتی تعلقات متاثر ہو چکے ہیں، فلموں، سبزیوں اور انٹرنیٹ بینڈوڈتھ پر پابندیاں بھی عائد کی گئی ہیں۔
حالیہ واقعات میں تھائی لینڈ نے دعویٰ کیا کہ بدھ کے روز بارودی سرنگوں سے اس کے 5 فوجی زخمی ہوئے، جس کے بعد سرحدی راستے بند کر دیے گئے، کمبوڈین سفیر کو ملک بدر اور اپنا سفیر واپس بلا لیا گیا۔
دوسری جانب، کمبوڈیا نے بھی سخت مؤقف اختیار کرتے ہوئے تھائی لینڈ سے سفارتی تعلقات محدود کر دیے اور تھائی لینڈ پر ’بلااشتعال فوجی جارحیت‘ کا الزام لگایا۔
سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق، دونوں ممالک کی اندرونی سیاست بھی اس تنازع کو ہوا دے رہی ہے۔ کمبوڈیا میں اقتدار کی منتقلی کے بعد ہن سین اپنے بیٹے کی پوزیشن مضبوط کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، جبکہ تھائی لینڈ کی حکومت بھی سیاسی بحران کا شکار ہے، جہاں وزیرِ اعظم کو معطل کر دیا گیا ہے۔
تھائی وزیرِ اعظم پھومتھم ویچایاچائی کا کہنا ہے کہ جب تک لڑائی بند نہیں ہوتی، مذاکرات ممکن نہیں۔ دوسری جانب، کمبوڈین وزیرِ اعظم ہن مانیت نے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل سے ہنگامی اجلاس بلانے کا مطالبہ کر دیا ہے۔
خطے میں امن قائم رکھنے کی کوششوں کے باوجود، آسیان تنظیم ثالثی کے لیے تیار دکھائی نہیں دیتی، جبکہ چین کے ممکنہ ثالثی کردار پر بھی شکوک و شبہات موجود ہیں۔
صورتحال سنگین ہے اور اگر کشیدگی پر قابو نہ پایا گیا تو یہ تنازع پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔