تمام یرغمالی رہا کرو تو زندہ رہو گے ورنہ مار دیئے جاؤ گے، نیتن یاہو کی حماس کو دھمکی

تازہ ترین خبروں اور تبصروں کیلئے ہمارا وٹس ایپ چینل جوائن کریں

اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے اپنے خطاب میں اسرائیلی وزیرِ اعظم بنجامن نیتن یاہو نے حماس، حزبِ اللہ، ایران اور یمن کے حوثی باغیوں کے خلاف سخت بیانات دیے اور انہیں کھلے الفاظ میں دھمکیاں دیں۔ نیتن یاہو نے دعویٰ کیا کہ ان کا ملک ان گروہوں کے خلاف کارروائیاں جاری رکھے گا اور اپنے مقاصد حاصل کرے گا۔

latest urdu news

نیتن یاہو نے اقوامِ متحدہ اور دیگر عالمی اداروں کی ان رپورٹس کو مسترد کیا جن میں کہا گیا تھا کہ اسرائیل غزہ میں نسل کشی کا مرتکب ہو رہا ہے۔ اپنے خطاب میں انہوں نے اسرائیلی کارروائیوں کا دفاع کیا اور کہا کہ یہ اقدامات خود کے دفاع اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ضروری ہیں۔

اسرائیلی وزیراعظم نے براہِ راست حماس سے کہا کہ ہتھیار ڈال دیں اور تمام یرغمالیوں کو رہا کریں، تبھی انہیں زندگی کی ضمانت دی جائے گی؛ بصورتِ دیگر "مار دیا جائے گا”۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ حماس کی باقیات ابھی بھی غزہ میں موجود ہیں اور اسرائیل اپنا مشن مکمل کر کے رہے گا۔

نیتن یاہو نے ایران کے متعلق بھی سخت موقف اختیار کیا اور کہا کہ تہران کا جوہری پروگرام خطرناک تھا، اس کے خلاف اسرائیل نے ملٹری کمانڈروں اور جوہری سائنسدانوں کو نشانہ بنایا۔ انہوں نے ایران میں یورینیئم کے ذخائر ختم کرنے اور ایران کو دوبارہ جوہری صلاحیت حاصل نہ کرنے دینے کا مطالبہ دہرایا۔

عرب اور مسلم ممالک کا اسرائیلی وزیراعظم کے اقوام متحدہ میں خطاب کا بائیکاٹ

اپنے خطاب میں نیتن یاہو نے حزبِ اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ پر بھی تنقید کی اور کہا کہ لبنان کی اس تنظیم نے اسرائیل پر ہزاروں راکٹ داغے جن کے نتیجے میں ہلاکتیں ہوئی تھیں، اس لیے انہیں نشانہ بنایا گیا۔ انہوں نے عراق اور شام میں بھی ملیشیاؤں اور عسکری اہداف کو تباہ کرنے کا ذکر کیا۔

نیتن یاہو نے امریکہ خصوصاً سابق صدر ٹرمپ اور امریکی عسکری امداد کا شکریہ ادا کیا، اور دعویٰ کیا کہ امریکی بمبار طیاروں نے ایران کے جوہری تنصیبات کے خلاف کارروائیوں میں مدد کی۔ ساتھ ہی انہوں نے یورپی ممالک پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ جنہوں نے عوامی سطح پر اسرائیل کی مذمت کی وہ نجی ملاقاتوں میں شکر گزاریاں کرتے ہیں۔

اقوامِ متحدہ کے فورم پر پیش کیے گئے نیتن یاہو کے بیانات نے بین الاقوامی سطح پر مختلف ردِ عمل کو جنم دیا ہے، اور ممکنہ سفارتی نکات اور قانونی مضمرات کے حوالے سے بحث متوقع ہے۔ اس خطاب کے بعد عالمی برادری میں مزید کشیدگی کے آثار سامنے آ سکتے ہیں اور آئندہ دنوں میں ردِ عمل اور بیانات پر نظر رکھی جائے گی۔

شیئر کریں:

ہمیں فالو کریں

frontpage hit counter