ترک صدر رجب طیب اردوان کا او آئی سی اجلاس سے خطاب، اسرائیل کو خطے میں امن کی سب سے بڑی رکاوٹ قرار دیا، مسلمانوں کے اتحاد اور سفارتی حل پر زور۔
استنبول، ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کو ہٹلر سے تشبیہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ پورے خطے کو تباہی کی طرف دھکیل رہا ہے، اس لیے مسلمانوں کا اتحاد وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے وزرائے خارجہ کے خصوصی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ترک صدر نے کہا کہ اسرائیل نہ صرف غزہ میں فلسطینیوں پر حملے کر رہا ہے بلکہ وہ یمن، شام، لیبیا اور اب ایران پر بھی جارحیت کا مرتکب ہو چکا ہے۔
صدر اردوان نے کہا کہ اسرائیل کی حکومت خطے میں امن کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے، اور اس کے ہاتھ مسلمانوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ انہوں نے عالمی برادری پر زور دیا کہ اسرائیلی حملوں کو روکنے میں سنجیدہ کردار ادا کرے، کیونکہ یہ جنگ صرف دو ممالک کے درمیان نہیں بلکہ پورے مشرقِ وسطیٰ کو لپیٹ میں لے سکتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ مسلمان اپنے اختلافات کو ایک طرف رکھ کر یکجہتی کا مظاہرہ کریں، کیونکہ اگر اس وقت اتحاد نہ ہوا تو خطے میں مزید خونریزی، تباہی اور سیاسی عدم استحکام پھیل جائے گا۔ ترک صدر نے مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے دو ریاستی فارمولے کی حمایت کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ مشرقِ وسطیٰ کو سفارتی کوششوں اور بامعنی مذاکرات کی اشد ضرورت ہے۔
او آئی سی کے اس اجلاس میں 40 سے زائد ممالک کے نمائندگان نے شرکت کی، جن میں ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی اور پاکستان کی نمائندگی کرنے والے نائب وزیراعظم اسحاق ڈار بھی شامل تھے۔ اجلاس میں ایران اور اسرائیل کے درمیان حالیہ کشیدگی، غزہ پر حملے اور خطے میں امن و استحکام کے امکانات کا جائزہ لیا گیا۔
ایرانی وزیر خارجہ نے اسرائیلی جارحیت کو مذاکرات کے عمل پر حملہ قرار دیا اور کہا کہ اسرائیل نے 15 جون کو طے شدہ بات چیت سے دو روز قبل ایران پر حملہ کر کے ثابت کر دیا کہ وہ سفارت کاری سے گریزاں ہے۔ اجلاس کے دوران اس بات پر اتفاق پایا گیا کہ او آئی سی کو ایک متحدہ اور واضح مؤقف کے ساتھ سامنے آنا ہوگا تاکہ مسلمانوں کے خلاف جاری مظالم کا مؤثر جواب دیا جا سکے۔
یاد رہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں ایران اور اسرائیل کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی اور غزہ پر اسرائیلی حملے عالمی سطح پر شدید تشویش کا باعث بنے ہوئے ہیں، اور اس موقع پر ترک صدر کی جانب سے مسلمانوں کے اتحاد پر زور دینا خطے کے سیاسی مستقبل میں ایک اہم پیش رفت تصور کیا جا رہا ہے۔