امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے داماد اور مشرق وسطیٰ سے متعلق سرگرم کاروباری شخصیت جیرڈ کشنر نے غزہ کے حالیہ دورے کے بعد علاقے کی تباہی کو دل دہلا دینے والا قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ "ایسا لگتا ہے جیسے یہاں ایٹم بم گرایا گیا ہو۔” انہوں نے یہ بات ایک امریکی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہی۔
کشنر کا کہنا تھا کہ جب وہ غزہ کے مختلف علاقوں میں گئے تو دیکھا کہ مقامی لوگ اپنے گھروں کی جانب واپس جا رہے ہیں، لیکن وہاں صرف کھنڈرات باقی ہیں۔ "میں نے آئی ڈی ایف سے پوچھا کہ یہ لوگ کہاں جا رہے ہیں؟ جواب ملا کہ اپنے گھروں کی طرف، لیکن اب وہ صرف ملبہ ہیں جہاں یہ خیمے لگا کر رہیں گے۔”
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ اسرائیل کی کارروائی کو نسل کشی سمجھتے ہیں تو کشنر نے واضح طور پر کہا، "نہیں، بالکل نہیں۔ یہ ایک جنگ ہے جو لڑی جا رہی ہے۔” ان کے ہمراہ موجود مشرق وسطیٰ کے لیے امریکی ایلچی اسٹیو وٹکوف نے بھی اس بیان کی تائید کرتے ہوئے کہا، "یہ جنگ تھی، نسل کشی نہیں۔”
تاہم ان بیانات کے برعکس، اقوام متحدہ کے ماہرین، انسانی حقوق کی تنظیمیں اور بین الاقوامی ادارے اسرائیل کی غزہ میں کی گئی کارروائیوں کو نسل کشی قرار دے چکے ہیں۔ ستمبر 2025 میں عالمی ماہرینِ نسل کشی کی تنظیم (IAGS) نے ایک متفقہ قرارداد منظور کی جس میں کہا گیا کہ "اسرائیل غزہ میں نسل کشی کر رہا ہے۔” جنوبی افریقہ پہلے ہی اس معاملے پر عالمی عدالت انصاف (ICJ) میں مقدمہ دائر کر چکا ہے۔
جیرڈ کشنر نے اپنے انٹرویو میں اسرائیلی قیادت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر اسرائیل مشرق وسطیٰ کے ساتھ گھلنا ملنا چاہتا ہے تو اسے فلسطینیوں کی بہتری، ترقی اور خود مختاری کے لیے کام کرنا ہوگا۔ ان کے اس بیان پر اسرائیل کے دائیں بازو اور صہیونی حلقوں میں شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔
اسرائیل کی غزہ کے مختلف علاقوں میں شدید بمباری، جنگ بندی ٹوٹنے کا خدشہ پیدا
جب غزہ کی تعمیر نو سے متعلق سوال کیا گیا تو کشنر اور وٹکوف نے بتایا کہ کچھ عرب ریاستیں اور یورپی ممالک اس عمل میں مالی امداد فراہم کریں گے۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ حماس کو غیر مسلح کرنے کی کوششیں جاری ہیں اور ایک بین الاقوامی فورس کے قیام پر غور کیا جا رہا ہے جو غزہ کے امور سنبھالے گی۔
انٹرویو کے دوران یہ بھی انکشاف ہوا کہ جیرڈ کشنر اور وٹکوف نے حال ہی میں اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کی کابینہ کے اجلاس میں بھی شرکت کی تھی۔ اس حوالے سے وٹکوف کا کہنا تھا کہ وہ وزیر اعظم نیتن یاہو کے دونوں جانب "نگہبان” کے طور پر بیٹھے تھے، اور یہ دعوت خود نیتن یاہو کی جانب سے ایک دوستانہ اشارہ تھی۔
کابینہ اجلاس کے دوران وٹکوف اور اسرائیلی وزیر بن گویر کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ بھی ہوا، جس کی تصدیق وٹکوف نے کرتے ہوئے کہا کہ بن گویر کا غصہ اکتوبر 7 کے حملوں اور یرغمالیوں کی حالت کی وجہ سے تھا۔ علاوہ ازیں، شرم الشیخ میں ہونے والی امن کانفرنس کے دوران وٹکوف نے حماس کے نمائندے خلیل الحیہ سے ملاقات کی اور ان کے بیٹے کی شہادت پر تعزیت بھی کی۔