غزہ میں اسرائیلی افواج کے شدید حملے، امدادی مرکز کے باہر 34 افراد سمیت 110 شہادتیں، حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی مذاکرات بھی ناکام ہو گئے
غزہ: اسرائیلی افواج نے غزہ بھر میں شدید حملے کیے ہیں، جن میں اب تک کم از کم 110 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ ان میں جنوبی رفح میں ایک امریکی امدادی مرکز کے باہر خوراک کے حصول کے لیے کھڑے 34 فلسطینی بھی شامل ہیں، جنہیں اسرائیلی فوج نے کسی پیشگی وارننگ کے بغیر نشانہ بنایا۔
الجزیرہ کے مطابق، اسرائیلی فائرنگ میں زخمی ہونے والے افراد کی اکثریت ان لوگوں پر مشتمل ہے جو محض امداد لینے آئے تھے۔ زندہ بچ جانے والے فلسطینی شہریوں نے اسے دانستہ اور بے رحمانہ قتلِ عام قرار دیا ہے۔ الشکوش کے علاقے میں پیش آئے اس واقعے پر اقوامِ متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیمیں شدید تشویش کا اظہار کر چکی ہیں، اور ان مراکز کو "موت کے کنویں” قرار دیا ہے۔
ادھر قطر میں اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری جنگ بندی مذاکرات بھی تعطل کا شکار ہو چکے ہیں۔ فلسطینی ذرائع کے مطابق، حماس نے اسرائیلی انخلا کی پیش کردہ نقشہ بندی کو مسترد کر دیا ہے، کیونکہ اس میں غزہ کے 40 فیصد علاقے، خصوصاً رفح، اور شمالی و مشرقی حصے بدستور اسرائیلی کنٹرول میں رکھے گئے ہیں۔ حماس چاہتی ہے کہ اسرائیل مارچ 2024 سے پہلے والے مقام پر واپس چلا جائے، جبکہ اسرائیلی مؤقف اس کے برعکس ہے۔
غزہ میں ڈاکٹروں کے مطابق، صرف مئی کے آخر سے اب تک امریکی و اسرائیلی تنظیموں کے امدادی مراکز پر حملوں میں 850 سے زائد فلسطینی شہید اور 5,000 سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔ الاقصیٰ اسپتال کے مطابق، زیادہ تر زخمیوں کو سر اور ٹانگوں پر گولیاں لگی ہیں، جب کہ ادویات، آپریشنز اور دیگر طبی سہولیات کی شدید قلت ہے۔
غزہ میں بھوک بدترین سطح پر، اسرائیلی بمباری میں 45 فلسطینی شہید
گزشتہ 48 گھنٹوں میں اسرائیلی افواج نے غزہ پر 250 سے زائد حملے کیے، جن میں شاطی کیمپ، جبالیا، بیت حانون اور دیر البلح کے علاقے شدید متاثر ہوئے۔ جبالیا میں رہائشی عمارتوں پر بمباری سے 15، جبکہ غزہ شہر میں 14 فلسطینی شہید ہوئے۔ بیت حانون کے شمال مشرقی علاقے پر صرف ایک دن میں 50 بم گرائے گئے۔
غزہ کی مقامی حکومت کے مطابق، 67 بچے اب تک غذائی قلت سے جاں بحق ہو چکے ہیں اور مزید 650,000 بچے شدید خطرے سے دوچار ہیں۔ حکومت کا کہنا ہے کہ درجنوں اموات خوراک اور ادویات کی عدم دستیابی کی وجہ سے ہو چکی ہیں، اور صورتحال ایک ناقابلِ بیان انسانی المیے کی شکل اختیار کر چکی ہے۔
یاد رہے کہ گزشتہ ہفتوں میں اسرائیل نے نہ صرف خوراک، ادویات اور ایندھن کی ترسیل روک رکھی ہے بلکہ عالمی دباؤ کے باوجود امدادی مراکز پر حملے جاری رکھے ہیں، جس سے انسانی بحران شدت اختیار کر گیا ہے۔