تل ابیب: اسرائیلی فوج کے ایک ریٹائرڈ جنرل نے غزہ میں جاری فوجی کارروائیوں پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ بچوں کو تفریح کے طور پر قتل کرنا کسی مہذب قوم کی پہچان نہیں ہو سکتی۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک سمجھدار اور ذمے دار ریاست عام شہریوں، خصوصاً بچوں، کو نشانہ نہیں بناتی۔
"یہ جنگ نہیں، ایک انسانی المیہ ہے” – سابق اسرائیلی جنرل
سابق جنرل کا کہنا تھا کہ شہری آبادی کو جبری طور پر بے دخل کرنا اور معصوم بچوں کی زندگیاں چھیننا نہ صرف اخلاقی اقدار کی خلاف ورزی ہے بلکہ بین الاقوامی قوانین کی بھی صریح خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے اس رویے کو اسرائیل کی ساکھ کے لیے خطرہ قرار دیا۔
اسرائیلی اپوزیشن رہنما کی حکومت پر کھلی تنقید
اس تنقید میں مزید شدت اس وقت آئی جب اسرائیلی اپوزیشن کے سرکردہ رہنما اور سابق ڈپٹی چیف آف اسٹاف یائر گولن نے ایک پریس کانفرنس میں موجودہ حکومت پر الزامات عائد کیے۔ گولن نے کہا کہ اسرائیلی حکومت جان بوجھ کر بچوں اور عام شہریوں کو نشانہ بنا رہی ہے، جو کہ ایک سنگین انسانی المیہ ہے۔
جنگ بندی سے انکار اسرائیل کو عالمی تنہائی کی طرف لے جا سکتا ہے
یائر گولن نے خبردار کیا کہ اگر اسرائیل نے فوری طور پر جنگ بندی پر رضامندی ظاہر نہ کی تو اسے جنوبی افریقہ کی طرز پر عالمی سطح پر بائیکاٹ اور تنہائی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی برادری کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا ہے۔
اسرائیل کی ساکھ کو شدید نقصان، عالمی برادری میں تشویش
ریٹائرڈ جنرل کے مطابق غزہ میں جاری آپریشنز کے نتیجے میں دس ہزار سے زائد فلسطینی جان سے جا چکے ہیں اور ہزاروں افراد کو جبری طور پر نقل مکانی پر مجبور کیا گیا ہے۔ یہ سب اسرائیل کو دنیا کی نظروں میں ایک ظالم ریاست کے طور پر پیش کر رہا ہے، جو اس کے عالمی وقار کے لیے نقصان دہ ہے۔
اسرائیل کے اندر سے اُٹھتی مخالفت کی آوازیں
یہ بیانات اس امر کی نشاندہی کرتے ہیں کہ اسرائیل کے اندر بھی کئی سابق فوجی اور سیاسی رہنما موجودہ پالیسیوں سے سخت نالاں ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ نہ صرف غزہ بلکہ اسرائیل کے مستقبل کے لیے بھی نظر ثانی ناگزیر ہو چکی ہے۔