تہران، ایران کے نائب وزیر خارجہ مجید تخت روانچی نے امریکا کے ساتھ ممکنہ مذاکرات کے حوالے سے سخت مؤقف اختیار کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب تک امریکا یہ واضح نہیں کرتا کہ وہ مذاکرات کے دوران یا اس سے پہلے مزید کسی فوجی حملے کی منصوبہ بندی نہیں کرے گا، تب تک ایران سنجیدہ بات چیت کے لیے تیار نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ثالثوں کے ذریعے امریکا کی طرف سے مذاکرات کی خواہش کا اظہار ضرور کیا گیا ہے، لیکن ساتھ ہی اس بنیادی سوال پر مکمل خاموشی اختیار کی گئی ہے کہ کیا مذاکرات کے دوران امریکا دوبارہ ایران پر حملے کرے گا یا نہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ 13 جون کو اسرائیلی حملوں کے آغاز کے بعد مسقط میں جاری امریکا-ایران بلاواسطہ مذاکرات کا چھٹا دور معطل ہو گیا تھا، اور 22 جون کو صورتحال اس وقت سنگین ہو گئی جب امریکا نے ایران کی تین جوہری تنصیبات پر براہ راست حملہ کر کے خود کو اس تنازع میں شامل کر لیا۔
نائب وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ایران نے ہمیشہ پرامن مقاصد کے لیے یورینیم کی افزودگی پر زور دیا ہے اور یہ الزام بے بنیاد ہے کہ ایران خفیہ طور پر جوہری بم تیار کر رہا ہے۔ ان کے بقول ایران کو اس کے سائنسی اور تحقیقی پروگرام کے لیے درکار جوہری مواد کی رسائی سے محروم کرنا غیر منصفانہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ بات چیت کی جا سکتی ہے کہ ایران کتنی مقدار میں یورینیم افزودہ کرے، مگر اس بات پر زور دینا کہ ایران کی افزودگی مکمل طور پر صفر ہو، اور اس کی نافرمانی پر بمباری کی دھمکیاں دی جائیں، یہ سراسر "جنگل کا قانون” ہے جسے ایران کسی صورت تسلیم نہیں کرے گا۔
یاد رہے کہ ایران اور امریکا کے درمیان تعلقات طویل عرصے سے کشیدہ ہیں، تاہم 2015 کے جوہری معاہدے کے بعد ایک عرصے تک حالات نسبتاً بہتر رہے۔ مگر ٹرمپ انتظامیہ کے دوران اس معاہدے سے امریکی انخلا، سخت پابندیاں اور فوجی کارروائیاں، بالخصوص جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد، تعلقات شدید تناؤ کا شکار ہو گئے۔
حالیہ حملوں کے بعد مذاکرات کی بحالی ایک نازک موڑ پر پہنچ چکی ہے، اور ایران کا تازہ مؤقف اس کی واضح علامت ہے۔