ایران میں ممکنہ رجیم چینج؟ اقتدار کے لیے ممکنہ دعوے دار کون ہوں گے؟

تازہ ترین خبروں اور تبصروں کیلئے ہمارا وٹس ایپ چینل جوائن کریں

ایران اس وقت شدید عالمی اور اندرونی دباؤ کا سامنا کر رہا ہے۔ اسرائیلی حملوں، معیشت کی تباہ حالی، عوامی بے چینی، اور بین الاقوامی تنہائی نے حالات کو ایک نازک موڑ پر لا کھڑا کیا ہے۔ ایسے میں دنیا بھر میں یہ سوال شدت سے اُبھر رہا ہے کہ اگر تہران میں موجودہ حکومت کا خاتمہ ہوتا ہے تو اقتدار کا خلا کون پُر کرے گا؟ کون سی جماعتیں، شخصیات یا گروہ اس جنگ میں میدان میں ہوں گے؟

latest urdu news

شہزادہ رضا پہلوی: شاہی وراثت سے جمہوری دعوے تک

ایران کے سابق بادشاہ محمد رضا پہلوی کے بیٹے شہزادہ رضا پہلوی ان تمام ممکنہ متبادل میں سب سے نمایاں نام ہیں۔ امریکا میں مقیم رضا پہلوی خود کو ایک سیکولر، جمہوری اور انسانی حقوق کے علمبردار ایران کا نمائندہ قرار دیتے ہیں۔ انہیں امریکی، اسرائیلی اور یورپی حلقوں کی سفارتی اور اخلاقی حمایت حاصل رہی ہے، تاہم ایران کے اندر ان کی عوامی مقبولیت محدود ہے۔ تارکینِ وطن ایرانی برادری، خاص طور پر مغرب میں، ان کے نظریات سے ہم آہنگ نظر آتی ہے، لیکن اب تک وہ کسی بڑی سیاسی تنظیم کی قیادت نہیں کر رہے۔

مجاہدین خلق (MEK): منظم مگر متنازع

ایران کی سیاست میں دوسرا اہم نام مجاہدین خلق (MEK) کا ہے، جس کی قیادت مریم رجوی کر رہی ہیں۔ ماضی میں مسلح مزاحمت کے باعث متنازع بننے والی یہ تنظیم اب خود کو ایک منظم سیاسی و سفارتی تحریک کے طور پر پیش کر رہی ہے۔ امریکا اور یورپ میں انہیں کئی تھنک ٹینکس اور پالیسی ساز اداروں کی حمایت حاصل ہے۔ تاہم ایران کے اندر ان کی مقبولیت نہایت محدود ہے اور انہیں عام طور پر شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔

کانسٹی ٹیوشنلسٹ پارٹی: آئینی بادشاہت کی خواہش

تیسرا نمایاں دھڑا کانسٹی ٹیوشنلسٹ پارٹی آف ایران ہے جو آئینی شاہی نظام کی بحالی کے لیے کوشاں ہے۔ اس پارٹی کی قیادت روش زند کر رہے ہیں۔ یہ جماعت زیادہ تر رضا پہلوی کے نظریاتی حلقوں سے وابستہ ہے، اور بیرونِ ملک، خاص طور پر یورپ میں، ایرانی برادری میں اس کے کچھ فعال مراکز موجود ہیں۔ تاہم ایران کے اندر اس کی سیاسی حیثیت نہایت کمزور ہے۔

نسلی گروہ: اندرونی مزاحمت کے ممکنہ مراکز

ایران کی نسلی اقلیتیں — جن میں کرد، بلوچ اور عرب گروہ شامل ہیں — ممکنہ تبدیلی کی صورت میں علاقائی اثر و رسوخ کی بنیاد پر اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔ کردستان فری لائف پارٹی (PJAK) اور بلوچستان راجی زرمکاران (BRZ) جیسے گروہ اپنے اپنے علاقوں میں عسکری اور مزاحمتی نیٹ ورک رکھتے ہیں۔ اگرچہ عالمی سطح پر انہیں کھلی حمایت حاصل نہیں، مگر مغربی تھنک ٹینکس اور خفیہ ادارے ان پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔

نئی نسل کی تحاریک: زن، زندگی، آزادی

ایران میں نئی نسل کی ابھرتی ہوئی تحریکیں جیسے "زن، زندگی، آزادی” ملک کے اندر سب سے طاقتور عوامی مظاہرہ بن کر سامنے آئی ہیں۔ ان تحاریک نے حالیہ برسوں میں بڑے پیمانے پر احتجاجات کو جنم دیا، جن میں نوجوانوں، خواتین اور طلبہ کا کردار نمایاں تھا۔ اگرچہ یہ تحریکیں فی الحال کسی منظم قیادت سے محروم ہیں، مگر ان کی اخلاقی ساکھ، جذبہ اور بین الاقوامی ہمدردی انہیں ایک غیر رسمی مگر طاقتور سیاسی قوت بنا سکتی ہے۔

کیا اقتدار کے لیے کوئی واضح متبادل موجود ہے؟

موجودہ حالات میں ایران میں کوئی ایک واضح اور قابلِ قبول متبادل قیادت موجود نہیں ہے۔ مختلف دھڑے، شخصیات اور گروہ ایک دوسرے سے نہ صرف نظریاتی طور پر مختلف ہیں بلکہ ان کے مقاصد اور طریقۂ کار میں بھی تضاد ہے۔ ایران کے اندر اور باہر موجود متبادل قوتیں یا تو محدود اثر رکھتی ہیں یا متنازع ماضی کی حامل ہیں۔ ممکنہ رجیم چینج کی صورت میں ملک ایک انتہائی پیچیدہ سیاسی خلا کا شکار ہو سکتا ہے، جہاں مختلف مفادات اور طاقتیں برسرپیکار ہوں گی۔

نتیجہ: ایک غیر یقینی مستقبل

ایران کے سیاسی منظرنامے میں غیر یقینی صورتحال غالب ہے۔ اگر حکومت کا خاتمہ ہوتا ہے تو نہ صرف اقتدار کے لیے رسہ کشی شروع ہوگی بلکہ داخلی استحکام، علاقائی خودمختاری کے سوالات اور عالمی مفادات کا تصادم بھی شدت اختیار کر سکتا ہے۔ ایسے میں کوئی بھی تبدیلی فوری یا پائیدار نظر نہیں آتی، جب تک کہ داخلی قیادت اور بیرونی قوتوں میں ایک متوازن اور جامع روڈ میپ پر اتفاق نہ ہو جائے۔

شیئر کریں:

ہمیں فالو کریں

frontpage hit counter