تہران: ایران نے اسرائیل اور امریکہ کے حالیہ حملوں میں شدید نقصان اٹھانے والے اپنے جوہری مراکز کو دوبارہ تعمیر کرنے کا باضابطہ اعلان کر دیا ہے۔
ایرانی ایٹمی ایجنسی کے سربراہ محمد اسلامی نے کہا ہے کہ حملوں کی پیشگی تیاری موجود تھی، اور اب تمام متاثرہ مراکز میں پیداوار اور خدمات کی بحالی کا کام تیزی سے شروع کر دیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایران اپنے ایٹمی پروگرام کو کسی بھی قیمت پر نہیں روکے گا۔
ایران کے اہم جوہری مراکز، بشمول نطنز، فردو اور اصفہان، اسرائیلی اور امریکی حملوں کا نشانہ بنے۔ اسرائیل کی جانب سے پہلے ڈرون حملے اور سائبر وار کے ذریعے نظام کو متاثر کیا گیا، جس کے بعد امریکہ نے بی-ٹو اسٹیلتھ بمبار طیاروں کے ذریعے "بنکر بسٹر” بم گرائے، جبکہ ٹوما ہاک کروز میزائلوں کا استعمال کر کے زیرِ زمین تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا۔ ان حملوں میں ایران کے کئی ریسرچ سینٹرز اور یورینیم افزودگی کے یونٹ تباہ ہوئے۔
ذرائع کے مطابق، ایران نے ان حملوں کے جواب میں اسرائیل کے مختلف فوجی اڈوں اور حساس تنصیبات پر بیلسٹک میزائل داغے، جن میں تل ابیب کے قریب ایک فوجی مرکز کو نقصان پہنچا۔ اس کے علاوہ، ایران کے حمایت یافتہ گروہوں نے شام، لبنان اور یمن سے اسرائیلی مفادات کو نشانہ بنایا، جس سے خطے میں کشیدگی انتہائی حد تک بڑھ گئی ہے۔
ایرانی فوجی ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر حملے جاری رہے تو ایران براہِ راست امریکہ کے مفادات کو بھی نشانہ بنائے گا۔ اسرائیل نے بھی اعلان کیا ہے کہ وہ ایران کی جوہری صلاحیت کو مکمل طور پر ختم کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔ خلیجی ممالک میں فوجی چوکسیاں بڑھا دی گئی ہیں، جبکہ امریکہ نے بحرین اور قطر میں موجود اپنے اڈوں کو ہائی الرٹ پر رکھا ہے۔
مبصرین کے مطابق، یہ صورتحال ایک مکمل علاقائی جنگ میں تبدیل ہو سکتی ہے، جس کے اثرات مشرقِ وسطیٰ سے باہر بھی محسوس کیے جا سکتے ہیں۔ اقوامِ متحدہ اور یورپی یونین نے فوری جنگ بندی کی اپیل کی ہے، تاہم دونوں فریق اپنے موقف پر سختی سے قائم ہیں۔
خطے کی صورتحال مسلسل بگڑتی جا رہی ہے، اور اس وقت عالمی برادری کی نظر تہران اور تل ابیب کے ممکنہ اگلے اقدامات پر ہے۔