بھارتی افواج کو حالیہ تنازع میں پاکستان کے ہاتھوں ملنے والی شکست پر اعلیٰ سطح پر غور و فکر جاری ہے۔ بھارتی ڈپٹی آرمی چیف لیفٹیننٹ جنرل راہول سنگھ نے ایک بریفنگ کے دوران پاکستان کی عسکری برتری کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی افواج کو بھارتی فوجی نقل و حرکت کا مکمل ادراک تھا۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ پاکستان کی C4ISR (کمانڈ، کنٹرول، کمیونیکیشن، کمپیوٹرز، انٹیلیجنس، سرویلنس اور ریکانائسنس) صلاحیتوں نے بھارتی دفاعی نظام کو بری طرح بے نقاب کر دیا۔
راہول سنگھ کا کہنا تھا کہ پاک فضائیہ نے آپریشن سندور کے دوران جس مؤثر انداز میں الیکٹرانک وارفیئر کا استعمال کیا، وہ بھارتی افواج کے لیے انتہائی حیران کن تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ پاک فوج کے الفتح راکٹ سسٹم نے بھارتی فوجی اڈوں کو بھاری نقصان پہنچایا، جبکہ بھارتی ایئر ڈیفنس وسیع جغرافیہ کی وجہ سے مؤثر طور پر متحرک نہ ہو سکا۔
انہوں نے مزید کہا کہ بھارت کو ایک نہیں بلکہ تین محاذوں پر سامنا تھا، جہاں پاکستان، چین اور ترکی نے بیک وقت دباؤ بڑھایا۔ ان کا شکوہ تھا کہ بھارت کو مطلوبہ جنگی سازوسامان وقت پر فراہم نہیں ہو سکا، جبکہ چین نے اپنے ہتھیار براہ راست بھارتی سرزمین پر آزمانے کو ترجیح دی۔
یہ پہلا موقع نہیں جب بھارتی فوجی قیادت نے اس نوعیت کا اعتراف کیا ہو۔ گزشتہ ماہ بھارتی ایئر چیف مارشل امرپریت سنگھ بھی دفاعی تیاریوں میں تاخیر پر کھل کر شکوہ کر چکے ہیں۔ ماہرین کے مطابق بھارت کی جانب سے پاکستان، ترکی اور چین پر مشترکہ دشمنی کا الزام دراصل اپنی اندرونی کمزوریوں کو چھپانے کی کوشش ہے۔
پاکستانی وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے بھارتی مؤقف کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت کا "نیو نارمل” بیانیہ عالمی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ پاکستان نے کبھی اس بات پر اعتراض نہیں کیا کہ بھارت اسرائیلی یا فرانسیسی ہتھیار استعمال کر رہا ہے، لہٰذا بھارتی قیادت کو بھی بچگانہ الزامات سے گریز کرنا چاہیے۔
دفاعی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بھارت کو اپنی عسکری اور خارجہ پالیسی پر ازسرنو غور کرنا ہو گا۔ پاکستان کی جانب سے نہ صرف محدود عسکری طاقت استعمال کی گئی بلکہ میدان جنگ میں پیشہ ورانہ مہارت، قیادت کی جرات اور عوامی اعتماد نے کامیابی کو ممکن بنایا۔
آئی ایس پی آر کے مطابق پاکستان نے حالیہ معرکے میں اپنی مجموعی تکنیکی صلاحیتوں کا صرف 10 سے 15 فیصد استعمال کیا، جبکہ باقی صلاحیتیں آئندہ کسی بھی ممکنہ خطرے کے لیے محفوظ رکھی گئی ہیں۔
ماہرین کا ماننا ہے کہ بھارت کو بار بار دوسروں کو موردِ الزام ٹھہرانے کے بجائے اپنی پالیسیوں اور دفاعی تیاریوں پر توجہ دینی چاہیے، جو اسے بین الاقوامی سطح پر تنہائی کی طرف دھکیل رہی ہیں۔