نئی دہلی کی پنجاب اور ہریانہ ہائیکورٹ نے ایک مقدمے کی سماعت کے دوران سرکاری ڈاکٹروں کو اپنی تحریر بہتر کرنے کی ہدایت جاری کی ہے۔
عدالت کا کہنا ہے کہ ڈاکٹروں کی جانب سے لکھی گئی رپورٹس اور نسخے اکثر اتنے بے ترتیب اور الجھے ہوئے ہوتے ہیں کہ انہیں پڑھنا ناممکن ہو جاتا ہے، جو نہ صرف عدالتی عمل بلکہ مریضوں کی صحت کے لیے بھی خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔
یہ ریمارکس ایک سنگین مقدمے کی سماعت کے دوران دیے گئے جس میں ایک خاتون نے ایک مرد پر جنسی زیادتی، فراڈ اور جعل سازی کے الزامات لگائے تھے۔ عدالت میں پیش کی گئی میڈیکو لیگل رپورٹ کی تحریر اس قدر مبہم تھی کہ جج اس کا ایک لفظ بھی سمجھ نہ سکے۔
جج نے رپورٹ پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ "یہ عدالت کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ ایک اہم طبی دستاویز کا ایک بھی جملہ پڑھنے کے قابل نہیں ہے۔”
عدالت نے یہ بھی کہا کہ ایسے وقت میں جب دنیا ڈیجیٹل دور میں داخل ہو چکی ہے اور ٹیکنالوجی ہر سطح پر دستیاب ہے، تو پھر ڈاکٹروں کی ایسی ناقابلِ فہم ہینڈ رائٹنگ کسی بھی صورت قابلِ قبول نہیں۔
عدالتی حکم میں حکومت کو دو بڑے اقدامات تجویز کیے گئے
- میڈیکل کالجوں میں طلبہ کو خوشخطی (Handwriting) کی باقاعدہ تربیت دی جائے۔
- طبی نسخوں اور رپورٹس کو مرحلہ وار مکمل ڈیجیٹل نظام میں منتقل کیا جائے، جس کے لیے دو سال کی مدت مقرر کی گئی ہے۔
عدالت کا ماننا ہے کہ ایسے اقدامات سے نہ صرف عدالتی کارروائیوں میں شفافیت آئے گی بلکہ مریضوں کے علاج میں بھی بہتری آئے گی۔