بھارتی ریاست مدھیہ پردیش کے شہر رائے کے اودھیا پاڑہ سے تعلق رکھنے والے 84 سالہ جگیشور پرساد آودھیا کو آخرکار 39 سال بعد عدالت نے باعزت بری کر دیا۔
انہیں 1986 میں محض 100 روپے رشوت لینے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا، جب وہ غیر منقسم مدھیہ پردیش کے اسٹیٹ روڈ ٹرانسپورٹ کارپوریشن میں بطور کلرک خدمات انجام دے رہے تھے۔
چونکہ مقدمہ دہائیوں تک طول پکڑتا رہا، جگیشور پرساد آودھیا انصاف میں تاخیر اور نظام کی بے حسی کی جیتی جاگتی مثال بن گئے۔ فیصلے کے بعد بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اب یہ بریت اُن کی زندگی میں کوئی معنی نہیں رکھتی، کیونکہ اس طویل جدوجہد نے ان کا سب کچھ چھین لیا۔ ان کے مطابق الزام لگنے کے بعد نوکری ختم ہوگئی، معاشرے نے منہ موڑ لیا، وہ اپنے بچوں کو تعلیم اور بہتر مستقبل نہ دے سکے، حتیٰ کہ بیوی بھی مناسب علاج نہ ملنے کی وجہ سے دنیا چھوڑ گئی۔
انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عدالت کا بے گناہی کا سرٹیفکیٹ اُس بھاری بوجھ کا ازالہ نہیں کر سکتا جو وہ اور ان کا خاندان تقریباً چار دہائیوں تک اٹھاتے رہے۔ "میں نے کچھ نہیں کیا تھا، مگر سب کھو دیا۔ اب کس کو بتاؤں کہ میں بے قصور تھا؟ اب کوئی سننے والا ہی نہیں رہا
