مصر کے شہر شرم الشیخ میں جاری بالواسطہ مذاکرات میں حماس کے اعلیٰ وفد کے سربراہ خلیل الحیہ نے کہا ہے کہ ان کی تنظیم کو اسرائیل کے وعدوں پر اعتماد نہیں، اور وہ غزہ میں جنگ بندی کیلئے ایک واضح اور مستقل میکینزم چاہتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر اسرائیل نے ماضی کی طرح عارضی جنگ بندی کے بعد دوبارہ کارروائیاں شروع کیں تو کسی بھی معاہدے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔
ان مذاکرات میں قطر، ترکیہ اور امریکا کے نمائندے بھی شریک ہیں، جن کا مقصد جنگ بندی کے فارمولے اور یرغمالیوں کی رہائی کے معاہدے کو آگے بڑھانا ہے۔ حماس نے واضح کیا ہے کہ آخری یرغمالی کی رہائی اسرائیلی فوج کے مکمل انخلا سے مشروط ہوگی۔
ادھر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے واشنگٹن میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے تصدیق کی کہ مذاکرات سنجیدہ مرحلے میں داخل ہو چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکا کی ایک ٹیم مذاکرات میں موجود ہے اور وہ غزہ میں پائیدار امن اور فوری یرغمالیوں کی رہائی کے لیے ہر ممکن کوشش کرے گا۔
اس وقت دنیا بھر میں فلسطین سے یکجہتی اور اسرائیلی مظالم کے خلاف بڑے پیمانے پر مظاہرے ہو رہے ہیں۔ نیویارک، لندن، برلن، جنیوا، سڈنی، پیرس، اور دیگر شہروں میں شہری سڑکوں پر نکل آئے۔ یونان اور برازیل میں مظاہروں کے دوران پولیس اور مظاہرین کے درمیان تصادم بھی ہوا، جبکہ جرمنی میں کئی افراد کو گرفتار کیا گیا۔
حماس کی غزہ کا انتظام عبوری فلسطینی انتظامیہ کے سپرد کرنے پر آمادگی، پاکستان کا خیر مقدم
ادھر خود اسرائیل میں بھی حکومت کے خلاف عوامی غصہ بڑھتا جا رہا ہے۔ تل ابیب میں ہزاروں مظاہرین نے یرغمالیوں کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا اور وزیراعظم نیتن یاہو پر الزام لگایا کہ ان کی پالیسیوں نے اسرائیل کو عالمی سطح پر تنہا کر دیا ہے۔ نیویارک میں بھی یہودی برادری کے افراد نے نیتن یاہو کے خلاف احتجاج کیا۔
حماس نے اپنی پوزیشن واضح کرتے ہوئے مروان برغوثی اور احمد سعدات جیسے فلسطینی رہنماؤں کی رہائی کا بھی مطالبہ کیا ہے، جو اسرائیلی جیلوں میں قید ہیں۔ اس مطالبے کو اسرائیلی میڈیا نے حماس کے مذاکراتی ایجنڈے کا حصہ قرار دیا ہے۔
غزہ میں جاری جنگ کو دو سال مکمل ہو چکے ہیں اور صورتحال بدستور سنگین ہے۔ حماس کی طرف سے مستقل جنگ بندی کے مطالبے نے ان مذاکرات کو ایک نئے موڑ پر لا کھڑا کیا ہے، جس کا انجام آنے والے دنوں میں واضح ہو گا۔