غزہ سے موصولہ اطلاعات کے مطابق فلسطین کی مزاحمتی تنظیم حماس نے امریکی تجویز پر جنگ بندی کے لیے باقاعدہ طور پر مثبت جواب جمع کروا دیا ہے، جس میں مکمل جنگ بندی، اسرائیلی افواج کے غزہ سے انخلا اور انسانی امداد کی فراہمی جیسے نکات شامل تھے۔ حماس نے یہ جواب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ کے ایلچی اسٹیو وٹکوف کو دیا، تاہم امریکی مندوب نے اس ردعمل کو ناقابل قبول قرار دے دیا، جس کی اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے بھی تائید کی ہے۔
حماس نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ وہ دس زندہ یرغمالیوں کو رہا کرنے اور 18 لاشیں اسرائیل کے حوالے کرنے پر تیار ہے، جبکہ اس کے بدلے اسرائیل کو ایک ہزار سے زائد فلسطینی قیدیوں کو رہا کرنا ہوگا۔ حماس کے مطابق یہ مطالبات خود امریکی تجویز کے مطابق ہی ہیں، اور ان کا مقصد نہ صرف جنگ بندی بلکہ غزہ سے صہیونی انخلا اور تباہ حال خاندانوں تک امداد کی فراہمی بھی ہے۔
حماس کے سیاسی بیورو کے رکن باسم نعیم کا کہنا تھا کہ انہوں نے جنگ بندی کی تجویز کو رد نہیں کیا بلکہ ایک مثبت، ذمہ دارانہ موقف اختیار کیا، تاہم امریکی ایلچی کا رویہ مکمل طور پر اسرائیل کی حمایت میں جھکا ہوا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل ان شرائط سے بھی پیچھے ہٹ رہا ہے جن پر پہلے اتفاق ہو چکا تھا، اور موجودہ مذاکراتی عمل غیر منصفانہ رخ اختیار کر چکا ہے۔
یاد رہے کہ 7 اکتوبر 2023 سے جاری صہیونی حملوں میں اب تک 54 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں اور غزہ مکمل طور پر تباہی کا شکار ہے۔ حماس کا کہنا ہے کہ موجودہ جنگ بندی تجویز خطے میں دیرپا امن کی جانب ایک موقع ہے، مگر اسرائیل اور اس کے حامی اس کوشش کو سبوتاژ کر رہے ہیں۔