سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حالیہ مشرق وسطیٰ کے دورے کے دوران، ان کا استقبال خلیجی ممالک میں روایتی اور ثقافتی مظاہروں سے کیا گیا۔
متحدہ عرب امارات میں، انہیں قصر الوطن میں "العیالہ” نامی روایتی رقص کے ذریعے خوش آمدید کہا گیا، جس میں خواتین نے سفید لباس پہن کر اپنے بالوں کو مخصوص انداز میں لہراتے ہوئے رقص پیش کیا۔ یہ رقص، جو عام طور پر شادیوں اور تہواروں میں پیش کیا جاتا ہے، یونسکو کی جانب سے ثقافتی ورثے کے طور پر تسلیم شدہ ہے۔
سعودی عرب میں، ٹرمپ نے "عرضہ” نامی تلواروں کے روایتی رقص میں شرکت کی، جو عام طور پر قومی دن یا خاص مہمانوں کے اعزاز میں پیش کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ، ٹرمپ کو سعودی عرب کا اعلیٰ ترین شہری اعزاز "کالر آف عبدالعزیز آل سعود” بھی دیا گیا۔
تاہم، ان تقریبات پر سوشل میڈیا پر تنقید بھی کی گئی، خاص طور پر متحدہ عرب امارات میں خواتین کے رقص پر۔ کچھ صارفین نے سوال اٹھایا کہ ایک اسلامی ملک میں اس طرح کی پرفارمنس کیوں پیش کی گئی، جبکہ دیگر نے اسے عرب ثقافت کا حصہ قرار دیا۔
ٹرمپ کے اس دورے کے دوران، انہوں نے خلیجی ممالک کے ساتھ اقتصادی معاہدے بھی کیے، جن میں سعودی عرب کے ساتھ 380 ارب ڈالر کے معاہدے شامل ہیں۔
اس کے علاوہ، انہوں نے متحدہ عرب امارات میں بین المذاہب ہم آہنگی کے مرکز "ابراہیمی فیملی ہاؤس” کا دورہ بھی کیا۔
یہ دورہ ٹرمپ کی ذاتی سفارت کاری کی حکمت عملی کا عکاس ہے، جس میں انہوں نے عرب رہنماؤں کے ساتھ قریبی تعلقات قائم کیے۔ تاہم، ناقدین کا کہنا ہے کہ اس طرح کے ذاتی تعلقات امریکی پالیسی کو غیر ملکی اثر و رسوخ کے لیے حساس بنا سکتے ہیں۔
ٹرمپ کا مشرق وسطیٰ کا دورہ ثقافتی مظاہروں، اقتصادی معاہدوں اور ذاتی سفارت کاری کا امتزاج تھا۔ جہاں ایک طرف انہوں نے عرب ثقافت کا احترام کیا، وہیں دوسری طرف اس دورے نے کئی سوالات بھی جنم دیے، خاص طور پر خواتین کی شرکت اور امریکی پالیسی پر اس کے اثرات کے حوالے سے۔