انسانی حقوق کے کارکنوں نے ایک بار پھر امدادی سامان سے لدا فریڈم فلوٹیلا جہاز غزہ روانہ کرنے کا اعلان کر دیا۔ اس بار جہاز پر ماحولیاتی کارکن گریٹا تھنبرگ بھی سوار ہیں، جو فلسطینی نسل کشی پر عالمی خاموشی کو خطرناک قرار دے رہی ہیں۔
میلان اور غزہ سے موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق انسانی حقوق کے لیے سرگرم گروپ فریڈم فلوٹیلا اتحاد نے اعلان کیا ہے کہ ان کا امدادی سامان سے لدا جہاز ایک بار پھر غزہ کی طرف روانہ کیا جا رہا ہے، جس کا مقصد اسرائیلی ناکہ بندی کو چیلنج کرنا اور جنگ زدہ علاقے کے مظلوم عوام تک امداد پہنچانا ہے۔ اس جہاز پر ماحولیاتی تحفظ کی عالمی آواز گریٹا تھنبرگ بھی موجود ہیں، جنہوں نے غزہ کی صورتحال کو "انسانیت کے خلاف جرم” قرار دیا ہے۔
منتظمین کے مطابق جہاز شام کے وقت اطالوی بندرگاہ سسلین سے روانہ کیا گیا تاکہ بین الاقوامی توجہ اس انسانی بحران کی طرف مبذول کی جا سکے جس میں لاکھوں فلسطینی شدید مصائب کا شکار ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ اقدام نہ صرف امداد کی ترسیل کے لیے ہے بلکہ عالمی برادری کو جھنجھوڑنے کی ایک کوشش ہے تاکہ اسرائیلی محاصرے اور بمباری کے خلاف ایک اجتماعی آواز بلند کی جا سکے۔
پریس کانفرنس کے دوران گریٹا تھنبرگ نے آبدیدہ ہو کر کہا کہ "ہم یہ سب اس لیے کر رہے ہیں کہ غزہ کے عوام کو درپیش ظلم و جبر کے خلاف آواز بلند کرنا ہمارا انسانی فریضہ ہے۔ اگر ہم خاموش ہو گئے تو ہم اپنی انسانیت کھو بیٹھیں گے۔” انہوں نے عالمی برادری کی بے حسی کو فلسطینیوں کی نسل کشی سے زیادہ خطرناک قرار دیا۔
دوسری جانب اسرائیل ہمیشہ کی طرح اس مشن کو مسترد کرتا ہے اور غزہ کی ناکہ بندی کو "سیکیورٹی اقدام” قرار دیتا ہے۔ تاہم دنیا بھر میں اس جنگ کو نسل کشی قرار دیا جا رہا ہے۔ یاد رہے کہ اس سے قبل بھی فریڈم فلوٹیلا غزہ کے لیے روانہ ہوا تھا، جس پر اسرائیلی حملے میں کئی عام شہری جاں بحق ہوئے تھے اور یہ واقعہ ترکی و اسرائیل کے درمیان شدید سفارتی کشیدگی کا باعث بنا تھا۔
2 مارچ سے اسرائیلی فوج نے غزہ میں خوراک کی ترسیل کو مکمل طور پر روک رکھا ہے، اور صرف محدود مقدار میں ہی امداد داخل ہونے دی گئی ہے۔ اب تک اسرائیلی حملوں میں 54,000 سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔
یاد رہے کہ فریڈم فلوٹیلا پر اسرائیلی حملہ 2010 میں ہوا تھا، جس میں 9 ترک شہری مارے گئے تھے۔ اس واقعے کے بعد ترکی اور اسرائیل کے تعلقات کئی سالوں تک منقطع رہے تھے۔ اب ایک دہائی بعد یہ قافلہ ایک بار پھر امید، مزاحمت اور انسانیت کا پیغام لیے روانہ ہوا ہے۔