ڈونلڈ ٹرمپ نے آئندہ ہفتے غزہ معاہدے کی امید ظاہر کی ہے، جبکہ حماس نے جنگ بندی منصوبے پر ثالثوں کو مثبت جواب دے دیا ہے۔
واشنگٹن، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے آئندہ ہفتے غزہ جنگ بندی معاہدہ طے پانے کی امید ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اس عمل کو کامیاب بنانے کے لیے مکمل طور پر متحرک ہیں۔ دوسری جانب، فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس نے قطر اور امریکہ کی پیش کردہ نئی تجاویز پر مثبت ردعمل دیتے ہوئے فوری مذاکرات کی آمادگی ظاہر کر دی ہے۔
واشنگٹن میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے کہا کہ "آئندہ ہفتے غزہ معاہدہ ممکن ہے، ہم بہت سی امداد غزہ بھیج رہے ہیں اور اس تنازع کے پُرامن حل کے لیے پُرامید ہیں۔” انہوں نے مزید کہا کہ وہ اسرائیلی وزیرِاعظم سے ایران کے معاملے پر بھی گفتگو کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ "ایران کا جوہری پروگرام ہم نے ختم کیا تھا، مگر وہ اسے دوبارہ شروع کر سکتا ہے۔”
ٹرمپ نے واضح کیا کہ روس، چین اور دیگر ممالک کے ساتھ تجارتی و دفاعی امور پر بھی بات چیت جاری ہے۔ "ٹک ٹاک ڈیل کے بہت قریب ہیں اور چین یا میں خود جلد دورہ کر سکتے ہیں،” انہوں نے مزید کہا۔
یہ بھی پڑھیں: ڈونلڈ ٹرمپ کے بگ بیوٹی فل بل پر دستخط، غزہ میں جنگ بندی کا امکان
دوسری جانب، حماس نے باقاعدہ اعلامیہ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے قطر اور مصر کی ثالثی میں پیش کردہ جنگ بندی کی نئی تجاویز پر مکمل غور کے بعد مثبت جواب دے دیا ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ "ہم سنجیدگی سے مذاکرات کے نئے دور میں شامل ہونے کے لیے تیار ہیں تاکہ اس منصوبے کو عملی شکل دی جا سکے۔”
حماس کے مطابق، مجوزہ معاہدے میں جنگ بندی، انسانی امداد کی فراہمی، اسرائیلی یرغمالیوں اور فلسطینی قیدیوں کے تبادلے جیسے نکات شامل ہیں۔ اس سے قبل اسرائیلی حکومت نے بھی تصدیق کی تھی کہ انہیں حماس کی جانب سے تجاویز موصول ہو چکی ہیں اور ان کا تفصیلی جائزہ لیا جا رہا ہے۔
یاد رہے کہ یہ پیش رفت ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب غزہ میں مہینوں سے جاری اسرائیلی بمباری نے انسانی بحران کو شدید کر دیا ہے، ہزاروں افراد ہلاک، لاکھوں بے گھر اور بنیادی سہولیات تباہ ہو چکی ہیں۔ اگر یہ معاہدہ طے پا جاتا ہے تو یہ نہ صرف انسانی جانوں کے تحفظ میں مددگار ہوگا بلکہ مشرقِ وسطیٰ میں امن کی راہ بھی ہموار کرے گا۔