کیا اسرائیل کو ایران کے ایٹمی پروگرام پر کوئی ضمانت ملی؟

تازہ ترین خبروں اور تبصروں کیلئے ہمارا وٹس ایپ چینل جوائن کریں

ڈونلڈ ٹرمپ کے ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کے اعلان پر اسرائیلی میڈیا نے اپنی حکومت سے سخت سوالات اٹھا دیے۔ جنگ بندی کی شرائط، ایران کا یورینیم، جوہری تنصیبات، اور غزہ پر اثرات زیر بحث آ گئے۔

سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس اچانک اعلان نے عالمی سطح پر ہلچل مچا دی کہ ایران اور اسرائیل 12 روزہ جنگ کے بعد جنگ بندی پر متفق ہو چکے ہیں۔ ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر اس فیصلے کو "تاریخی” قرار دیتے ہوئے کہا کہ دونوں ممالک ایک دوسرے پر حملے بند کر دیں گے۔ مگر دوسری طرف، اسرائیلی میڈیا نے اس اعلان کے بعد اپنی حکومت سے سخت سوالات کا طوفان برپا کر دیا ہے، جن کے جوابات نہ صرف اس جنگ بندی کی نوعیت بلکہ مستقبل میں مشرق وسطیٰ کے حالات پر گہرے اثرات مرتب کر سکتے ہیں۔

latest urdu news

اسرائیلی میڈیا کے مطابق، یہ جنگ بندی کسی سادہ اعلان کا نتیجہ نہیں بلکہ اس کے پیچھے امریکہ اور اسرائیل کے درمیان کئی دنوں پر محیط خفیہ مذاکرات اور ایران و قطر کے درمیان سفارتی روابط شامل ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس خفیہ سفارت کاری کے دوران کیا ایران نے اپنے جوہری پروگرام میں کسی قسم کی نرمی پر آمادگی ظاہر کی؟ کیا امریکہ نے اسرائیل کو اس ضمن میں کوئی تحریری ضمانت دی ہے؟ اور اگر جنگ بندی کی خلاف ورزی ہوتی ہے تو اس کا ردعمل کیا ہوگا؟ ان سوالات کا جواب خود اسرائیلی حکومت کے پاس بھی فی الحال موجود نہیں۔

اسرائیل کی 12 روزہ جارحیت کا بنیادی ہدف ایران کے جوہری پروگرام کو تباہ کرنا تھا، لیکن ابھی تک یہ واضح نہیں کہ ایرانی جوہری تنصیبات، خاص طور پر اصفہان نیوکلیئر ٹیکنالوجی سینٹر کو کتنا نقصان پہنچا۔ جنگ سے قبل ایران نے افزودہ یورینیم کو محفوظ مقامات پر منتقل کر دیا تھا، اور اسرائیل اب اس بات پر فکر مند ہے کہ وہ یورینیم ذخیرہ کہاں ہے؟ یہ ایران کے لیے ایک اسٹریٹجک فتح کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے، جو اسرائیل کی انٹیلیجنس ناکامی بھی ثابت ہو سکتی ہے۔

ایک اور اہم سوال یہ ہے کہ آیا اس جنگ بندی میں ایران کے اتحادی یمن کے حوثی باغیوں کو بھی شامل کیا گیا ہے یا نہیں؟ اگر وہ شامل نہیں تو اسرائیلی شہریوں پر دوبارہ میزائل حملوں کا خدشہ برقرار ہے، خصوصاً بن گوریون ایئرپورٹ پر گزشتہ حملے کے تناظر میں اس خطرے کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

غزہ کی صورتحال بھی اس جنگ بندی سے جُڑی ہوئی ہے۔ اسرائیلی میڈیا پوچھ رہا ہے کہ آیا ٹرمپ نے جنگ بندی کے بدلے نیتن یاہو سے غزہ میں جنگ ختم کرنے اور فلسطینی مغویوں کی رہائی کا وعدہ بھی لیا ہے یا یہ سب کچھ ایران-اسرائیل تناظر تک محدود رہے گا؟ جبکہ غزہ پر اسرائیلی بمباری کو 627 دن مکمل ہو چکے ہیں اور ہزاروں جانیں ضائع ہو چکی ہیں، اس لیے یہ سوال اب عالمی سطح پر بھی اٹھنے لگا ہے کہ کیا یہ جنگ بھی کسی حقیقی سیاسی نتیجے پر ختم ہو گی یا صرف جنگ بندی کے اعلان تک محدود رہے گی؟

یاد رہے کہ ایران اور اسرائیل کے درمیان 12 روزہ کشیدگی نے خطے کو ایک اور بڑی جنگ کے دہانے پر لا کھڑا کیا تھا، اور اس اچانک جنگ بندی کے پیچھے ہونے والی خاموش سفارت کاری اب بین الاقوامی میڈیا کے لیے نئے سوالات کا سبب بن گئی ہے۔ ٹرمپ کے اعلان سے سیاسی درجہ حرارت تو وقتی طور پر کم ہوا ہے، مگر اس کے دور رس اثرات اور خطرات بدستور موجود ہیں۔

شیئر کریں:

ہمیں فالو کریں

frontpage hit counter