اسلام آباد، چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی کا کہنا ہے کہ پاک بھارت کشیدگی کے باعث عوام میں بےچینی پائی جاتی ہے، دعا ہے کہ حالات جلد بہتر ہو جائیں۔
اسلام آباد میں عدالتی رپورٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جبری گمشدگیوں کے مقدمات پر اداروں کے ردعمل کا جائزہ قومی عدالتی پالیسی میں لیا جائے گا، وکلا کو اس ضمن میں بلا کر مشاورت کی گئی ہے، تاہم حکومت کی جانب سے تاحال کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
چیف جسٹس نے بتایا کہ آئی ایم ایف وفد نے عدالتوں کو تجویز دی ہے کہ کمرشل مقدمات کو ترجیح دی جائے، ضلعی عدالتوں میں شام کی شفٹ متعارف کروائی جا رہی ہے، جس میں رضاکارانہ طور پر شام 2 بجے سے 5 بجے تک کام کرنے والے عدالتی افسران کی تنخواہیں 50 فیصد بڑھا دی جائیں گی۔
انہوں نے کہا کہ ترکی نے عدالتی نظام میں ٹیکنالوجی کا بہترین استعمال کیا ہے، اسی طرز پر پاکستان نے ترکی کے ساتھ مفاہمتی یادداشتیں (MoUs) بھی طے کی ہیں، امید ہے کہ چین، ایران، ترکی اور بنگلہ دیش کے ساتھ عدالتی روابط کو باضابطہ شکل دی جائے گی۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ان کا حالیہ غیر ملکی دورہ اسی مقصد کے لیے تھا کہ پاکستانی عدلیہ میں بھی ٹیکنالوجی کا مؤثر استعمال ممکن ہو سکے، انہوں نے واضح کیا کہ مصنوعی ذہانت (AI) کے نفاذ کے لیے مناسب تیاری ضروری ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہائی کورٹس میں سپریم کورٹ کی نسبت بہتر ٹیکنالوجی استعمال ہو رہی ہے، تاہم اب سپریم کورٹ بھی پیپرلیس ماحول کی طرف بڑھ رہی ہے، 15 جون سے 31 جولائی تک مقدمات کی صرف سافٹ کاپی درکار ہو گی، اور عدالتوں میں کاغذی کارروائی ختم کی جا رہی ہے۔
چیف جسٹس نے بتایا کہ سپریم کورٹ میں زیر التوا مقدمات کی تعداد کم ہو کر 56 ہزار رہ گئی ہے، فوجداری مقدمات کی سماعت کے لیے 3 بینچ تشکیل دے دیے گئے ہیں اور سزائے موت و عمر قید کے مقدمات کو ترجیحی بنیادوں پر نمٹایا جا رہا ہے