دلائل سے نہ صرف بھارتی ریٹائرڈ میجر جنرل جی ڈی بخشی کو آڑے ہاتھوں لیا بلکہ میزبان ارنب گوسوامی کو بھی لاجواب کر دیا۔
یہ مباحثہ اس وقت گرما گیا جب جی ڈی بخشی نے چین پر تبت میں جارحیت کا الزام عائد کیا۔
وکٹر گاؤ نے نہایت سنجیدگی سے جواب دیتے ہوئے کہا کہ اگر کسی فوجی افسر کو تاریخ کا درست ادراک نہ ہو تو اس کی جنگی بصیرت بھی نامکمل رہتی ہے۔
انہوں نے بخشی کو مشورہ دیا کہ محض جنگی کتب پڑھنے سے ایک فوجی رہنما عظیم نہیں بنتا، بلکہ اسے تاریخی سیاق و سباق کو بھی سمجھنا ہوتا ہے۔
پروگرام کے دوران پروفیسر گاؤ نے چین اور پاکستان کے تعلقات پر بات کرتے ہوئے واضح کیا کہ یہ دوستی وقتی یا موقع پرستی پر مبنی نہیں بلکہ دہائیوں پر محیط، اعتماد اور اشتراک پر مبنی ہے۔
انہوں نے کہا کہ چین، پاکستان کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کے تحفظ کو اہمیت دیتا ہے، اور اگر دونوں ممالک اس مقصد کے لیے قریبی تعاون کرتے ہیں تو دنیا کو حیرت نہیں ہونی چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ اتحاد وقت کی آزمائشوں پر پورا اترا ہے اور کوئی بھی طاقت اسے توڑ نہیں سکتی۔
ارنب گوسوامی نے شو کے دوران دعویٰ کیا کہ 6 اور 7 مئی کی درمیانی رات بھارت نے پاکستان پر میزائل حملے کیے اور چینی دفاعی ٹیکنالوجی ناکام ہوئی، جس پر وکٹر گاؤ نے نہایت تحمل کے ساتھ جواب دیتے ہوئے کہا کہ اگر کسی کو شکست ہوئی ہے تو وہ بھارت تھا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان ایئر فورس نے اس فضائی لڑائی میں بھارت کے پانچ جنگی طیارے مار گرائے جن میں تین جدید رافیل طیارے بھی شامل تھے۔ ان کے بقول، یہ بھارت کے لیے ایک عملی سبق تھا کہ وہ زمینی حقائق سے نظریں نہ چرائے۔
پروگرام میں جب بھارتی مہمانوں کے پاس پروفیسر گاؤ کے دلائل کا کوئی مؤثر جواب نہ رہا تو میزبان نے موضوع بدلنے کی کوشش کی۔
اس لائیو سیشن کے بعد سوشل میڈیا پر پروفیسر گاؤ کے پراعتماد لہجے اور مدلل گفتگو کو خوب سراہا جا رہا ہے، جبکہ بھارتی مہمانوں کی غیر تسلی بخش تیاری اور ارنب گوسوامی کے جھوٹے پروپیگنڈے پر بھی تنقید کی جا رہی ہے، جیسا کہ ارنب گوسوامی کے جعلی خبروں سے متعلق کیس میں بھی سامنے آ چکا ہے۔