چین نے جدید ٹیکنالوجی اور مصنوعی ذہانت کی مدد سے انجینئرنگ کی دنیا میں ایک نیا سنگِ میل عبور کرتے ہوئے سنکیانگ کے علاقے میں واقع جدید ڈیم میں پانی بھرنے کا آغاز کر دیا ہے۔ یہ ڈیم، جسے "داشیشیا ڈیم” کا نام دیا گیا ہے، دنیا کا سب سے اونچا کنکریٹ فیسڈ راک فل ڈیم ہے، جس کی بلندی 247 میٹر ہے — یعنی تقریباً ایک 80 منزلہ عمارت جتنی۔
ڈیم کی تعمیر میں مصنوعی ذہانت، خودکار مشینری، ڈیجیٹل ٹوئن (ڈیجیٹل ہمزاد)، اور بلاک چین جیسی جدید ٹیکنالوجیز استعمال کی گئی ہیں، جس نے اسے ایک انوکھا اور بے مثال منصوبہ بنا دیا ہے۔ بغیر ڈرائیور کے مشینوں اور خودکار نظام نے اس پراجیکٹ کو نہ صرف آٹھ ماہ پہلے مکمل کرنے میں مدد دی بلکہ زلزلے جیسے جغرافیائی چیلنجز سے نمٹنے کے قابل بھی بنایا۔
ڈیم کی مجموعی پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت 1.17 ارب کیوبک میٹر ہے، جس سے تارم اور آقسو دریا کے بیسن میں واقع 5 لاکھ 33 ہزار ہیکٹر زرعی اراضی کو سیراب کیا جا سکے گا۔ بجلی کی پیداوار کے لیے اس کی صلاحیت 750,000 کلو واٹ ہے، جس سے سالانہ 1.9 ارب کلو واٹ آور بجلی پیدا ہوگی، جو لاکھوں گھروں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے کافی ہے۔
ڈیپ سیک کا نیا اے آئی ماڈل Terminus V3.1 متعارف، ChatGPT کا ممکنہ متبادل قرار
ماحولیاتی تحفظ کو مدِنظر رکھتے ہوئے چینی حکام نے منصوبے کے اطراف میں دریائے تارم کے قدرتی ایکو سسٹم کی بحالی کے لیے 1 لاکھ 40 ہزار مچھلیاں چھوڑی ہیں۔ یہ اقدام ماحولیاتی توازن برقرار رکھنے کی طرف چین کی سنجیدگی کو ظاہر کرتا ہے۔
چینی میڈیا نے اس پورے منصوبے کو "تھری ڈی پرنٹنگ جیسا تعمیراتی عمل” قرار دیا ہے، جو ٹیکنالوجی، رفتار، اور تحفظ کا بہترین امتزاج ہے۔ ماہرین کے مطابق کنکریٹ فیسڈ راک فل ڈیم کی قسم کم لاگت اور زلزلہ مزاحم ہونے کی وجہ سے نہایت موثر سمجھی جاتی ہے۔
یہ ڈیم نہ صرف چین کی تکنیکی برتری کا مظہر ہے بلکہ یہ بھی دکھاتا ہے کہ جدید ٹیکنالوجی کس طرح بڑے پیمانے پر انفراسٹرکچر منصوبوں کو تیز، محفوظ اور پائیدار بنا سکتی ہے۔