بنگلادیشی سپریم کورٹ نے جماعت اسلامی کے رہنما اظہرالاسلام کی سزائے موت ختم کر دی، انسانیت کے خلاف جرائم سے بری، 2012 سے قید میں تھے۔
بنگلادیش کی سپریم کورٹ نے جماعت اسلامی بنگلادیش کے اہم رہنما اظہرالاسلام کی سزائے موت کو کالعدم قرار دیتے ہوئے ان کی فوری رہائی کا حکم جاری کر دیا ہے،غیر ملکی خبررساں ادارے کے مطابق عدالت نے قرار دیا کہ اظہرالاسلام کو انسانیت کے خلاف جرائم کے مقدمے سے بری کیا جاتا ہے کیونکہ ان کے خلاف الزامات ثابت نہیں ہو سکے۔
اظہرالاسلام 2012 سے جیل میں قید تھے اور گزشتہ برس وزیراعظم حسینہ واجد کی حکومت کے دوران انہیں سزائے موت سنائی گئی تھی،یہ فیصلہ بنگلادیش کے ان متنازع مقدمات میں سے ایک تھا جن میں مختلف سیاسی رہنماؤں کو 1971 کی جنگ کے مبینہ جرائم کے تحت سزائیں دی گئی تھیں۔
خبررساں ادارے کے مطابق، اظہرالاسلام ان چھ سیاستدانوں میں شامل تھے جنہیں حسینہ واجد کے گزشتہ دور حکومت میں سزائے موت سنائی گئی تھی۔ ان میں جماعت اسلامی کے چار اور بنگلادیش نیشنل پارٹی (BNP) کے ایک رہنما بھی شامل تھے۔
اظہرالاسلام کے وکیل نے فیصلے کے بعد کہا کہ ان کے مؤکل خوش قسمت رہے کہ انہیں اب تک پھانسی نہیں دی گئی تھی اور یہی ان کی زندگی کا سب سے بڑا تحفظ بن گیا، اگر وہ پھانسی دیے جانے والوں میں شامل ہوتے، تو انصاف کبھی نہیں ہو پاتا۔
یاد رہے کہ بنگلادیش میں 1971 کی جنگ کے مبینہ جرائم پر قائم کیے گئے خصوصی ٹریبونلز کو عالمی سطح پر سخت تنقید کا سامنا رہا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں ان مقدمات کی شفافیت، شواہد کی کمی، اور سیاسی انتقام پر مبنی فیصلوں پر سوال اٹھاتی رہی ہیں، جماعت اسلامی کے کئی رہنما ان عدالتی کارروائیوں کا نشانہ بن چکے ہیں اور یہ مقدمات ملک میں سیاسی کشیدگی کو مزید ہوا دیتے رہے ہیں،اظہرالاسلام کی رہائی اس تناظر میں ایک اہم قانونی اور سیاسی پیشرفت سمجھی جا رہی ہے۔
اظہرالاسلام کی رہائی کے بعد بنگلہ دیشی حکومت پر جماعت اسلامی کے خلاف کارروائیوں میں سیاسی انتقام کا پہلو مزید واضح ہوتا جا رہا ہے۔ حال ہی میں بنگلہ دیشی حکومت نے جماعت اسلامی پر مکمل پابندی عائد کرنے کا اعلان بھی کیا ہے، جس پر انسانی حقوق کی تنظیموں اور عالمی مبصرین نے شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔