بنگلادیش کی سابق وزیر اعظم اور معروف سیاسی رہنما خالدہ ضیا 80 برس کی عمر میں انتقال کر گئیں۔ وہ طویل عرصے سے علیل تھیں اور دارالحکومت ڈھاکا کے ایک اسپتال میں زیر علاج تھیں، جہاں مقامی وقت کے مطابق صبح 6 بجے انہوں نے آخری سانس لی۔ ان کے انتقال کی خبر سامنے آتے ہی بنگلادیشی سیاست میں سوگ کی فضا قائم ہو گئی۔
طبی ذرائع کے مطابق خالدہ ضیا جگر کے عارضے سمیت متعدد پیچیدہ بیماریوں میں مبتلا تھیں۔ گزشتہ روز ڈاکٹروں نے ان کی حالت کو انتہائی نازک قرار دیا تھا۔ ان کے علاج پر مامور میڈیکل بورڈ کے رکن ڈاکٹر ضیاء الحق کے مطابق انہیں لائف سپورٹ پر رکھا گیا تھا اور باقاعدگی سے ڈائیلاسس کیا جا رہا تھا۔ ڈاکٹرز کا کہنا تھا کہ جب بھی ڈائیلاسس کا عمل روکا جاتا تو ان کی صحت میں نمایاں بگاڑ آ جاتا، جبکہ زیادہ عمر اور مختلف بیماریوں کے باعث ایک ساتھ مکمل علاج ممکن نہیں رہا تھا۔
خالدہ ضیا بنگلادیش کی سیاست میں ایک نمایاں مقام رکھتی تھیں۔ انہوں نے دو مرتبہ ملک کی وزیر اعظم کے طور پر خدمات انجام دیں، پہلی مدت 1991 سے 1996 اور دوسری مدت 2001 سے 2006 تک رہی۔ وہ بنگلادیش کی پہلی خاتون وزیر اعظم تھیں جبکہ مسلم دنیا میں بے نظیر بھٹو کے بعد دوسری خاتون وزیر اعظم ہونے کا اعزاز بھی انہیں حاصل تھا۔
سابق بنگلادیشی وزیراعظم خالدہ ضیا کی حالت تشویشناک، آئی سی یو منتقل
وہ بنگلادیش کے سابق صدر ضیاء الرحمان کی اہلیہ تھیں اور بنگلادیش نیشنلسٹ پارٹی کی مرکزی رہنما کے طور پر طویل عرصہ متحرک رہیں۔ اپنے سیاسی کیریئر کے دوران انہیں کرپشن کے الزامات کا بھی سامنا رہا، جس کے نتیجے میں 2018 میں انہیں پانچ سال قید کی سزا سنائی گئی۔
خالدہ ضیا اور عوامی لیگ کی رہنما شیخ حسینہ واجد کے درمیان طویل سیاسی رقابت بنگلادیشی سیاست کی ایک نمایاں خصوصیت رہی۔ حالیہ برسوں میں سیاسی منظرنامہ اس وقت مزید بدل گیا جب شیخ حسینہ واجد کو گزشتہ سال اقتدار چھوڑنا پڑا۔
یہ بھی قابلِ ذکر ہے کہ خالدہ ضیا کے صاحبزادے اور بنگلادیش نیشنلسٹ پارٹی کے عبوری چیئرمین طارق رحمان چند روز قبل 17 سالہ جلاوطنی ختم کر کے وطن واپس لوٹے تھے۔ ان کی واپسی ایسے وقت میں ہوئی جب بنگلادیش میں اہم عام انتخابات متوقع ہیں، جس نے ملکی سیاست میں نئی بحث کو جنم دیا ہے۔
