افغان ٹیکسی ڈرائیوروں نے گرمی سے بچنے نے حیرت انگیز حل نکال لیا

تازہ ترین خبروں اور تبصروں کیلئے ہمارا وٹس ایپ چینل جوائن کریں

قندھار میں شدید گرمی کے دوران افغان ٹیکسی ڈرائیوروں نے خود ساختہ ایئر کولرز تیار کر لیے، جو اے سی سے بہتر کام کرتے ہیں۔

قندھار، افغانستان کے شہر قندھار میں شدید گرمی سے پریشان ٹیکسی ڈرائیوروں نے جدت پسندی کی ایک بہترین مثال قائم کرتے ہوئے اپنی گاڑیوں کے لیے خود ساختہ ایئر کولرز تیار کر لیے ہیں، جو نہ صرف کارآمد ثابت ہو رہے ہیں بلکہ مسافروں کی داد بھی سمیٹ رہے ہیں۔

latest urdu news

غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق قندھار میں ان دنوں درجہ حرارت 40 ڈگری سینٹی گریڈ سے تجاوز کر چکا ہے۔ ایسے میں جب زیادہ تر گاڑیوں کے اے سی نظام ناکارہ ہو چکے ہیں یا مہنگی مرمت کے متقاضی ہیں، تو ٹیکسی ڈرائیوروں نے سادگی اور تخلیق سے بھرپور حل ڈھونڈ نکالا۔ قندھار کی سڑکوں پر دوڑتی ٹیکسیوں کی چھتوں پر پلاسٹک کے بڑے ڈبے اور ایگزاسٹ ٹیوبیں نمایاں طور پر دکھائی دیتی ہیں، جو دراصل مقامی سطح پر تیار کردہ خود ساختہ ایئر کولرز ہیں۔

ایک افغان ٹیکسی ڈرائیور نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ یہ منفرد کولر صرف دن میں دو مرتبہ پانی بھرنے سے مکمل گاڑی کو ٹھنڈا کر دیتا ہے اور روایتی اے سی سے بہتر انداز میں ہوا مہیا کرتا ہے۔ قندھار کے ڈرائیور گل محمد کا کہنا ہے کہ شدید گرمی میں گاڑی کا اے سی نظام ناکام ہو جاتا تھا اور مرمت کا خرچ برداشت سے باہر تھا۔ اس لیے انہوں نے ایک ٹیکنیشن سے رابطہ کیا جس نے 3 ہزار افغانی (تقریباً 43 امریکی ڈالر) میں یہ ایئر کولر تیار کر کے دیا۔

گل محمد کے مطابق، یہ کولر کم خرچ، مؤثر اور مکمل طور پر مقامی وسائل سے تیار کیا گیا ہے۔ وہ روزانہ صرف دو بار پانی بھرتے ہیں اور اس سے سارا دن ٹھنڈی ہوا ملتی ہے، جس سے نہ صرف ڈرائیور بلکہ مسافر بھی مطمئن رہتے ہیں۔

دوسری جانب مسافروں نے بھی ٹیکسیوں میں نصب ان تخلیقی کولرز کو سراہا ہے اور اسے گرمی میں ایک ریلیف قرار دیا ہے۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ ایسی چھوٹی مگر عملی سوچ ہی اصل ترقی کی بنیاد ہے، خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں سہولیات کی کمی ہو۔

واضح رہے کہ افغان محکمہ موسمیات نے خبردار کیا ہے کہ ملک کے بیشتر حصوں میں درجہ حرارت آئندہ ہفتوں میں مزید بڑھ سکتا ہے۔ ماہرین کے مطابق، ماحولیاتی تبدیلیوں کے بڑھتے اثرات افغانستان کے انسانی بحران کو مزید شدید بنا سکتے ہیں، خاص طور پر ان شہروں میں جہاں توانائی اور بنیادی سہولیات کی شدید قلت ہے۔

یاد رہے کہ افغانستان گزشتہ کئی برسوں سے مسلسل موسمیاتی چیلنجز، سیاسی عدم استحکام اور معاشی مسائل کا شکار ہے۔ ان حالات میں عام شہریوں کی جانب سے اس طرح کی مقامی، سستی اور قابلِ عمل ایجادات امید کی ایک کرن بن کر سامنے آ رہی ہیں۔

شیئر کریں:

ہمیں فالو کریں

frontpage hit counter