افغان طالبان نے سینکڑوں اہم تاریخی اور سیاسی کتب کو ممنوع قرار دے دیا ہے، جس میں یونیورسٹی کی 670 سے زائد نصابی کتابیں اور عوامی سطح پر دستیاب کئی کتب شامل ہیں۔ پابندی میں خواتین اور ایرانی مصنفین کی تصنیفات بھی شامل ہیں، جس سے تعلیمی اور فکری آزادی متاثر ہو رہی ہے۔
افغان جریدہ "ہشت صبح” کے مطابق یہ اقدام تعلیمی اداروں اور عام عوام کے لیے آزادی اظہار کو محدود کرنے کی کوشش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ افغانستان اینالسٹ نیٹورک کے مطابق پابندی کی فہرست میں نصابی اور غیر نصابی دونوں قسم کی کتب شامل ہیں۔
یونیسیف کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ افغانستان میں 21 لاکھ 30 ہزار سے زائد بچے اسکول سے باہر ہیں، جن میں 60 فیصد لڑکیاں شامل ہیں، اور 2.2 ملین نوجوان خواتین ثانوی تعلیم سے محروم ہیں، جو ملک میں تعلیم کی صورت حال پر شدید اثر ڈال رہی ہے۔
