واشنگٹن، فلسطینی عوام سے اظہار یکجہتی کرنے پر امریکا میں 1500 کے قریب غیر ملکی طلبہ کے ویزے منسوخ کر دیے گئے۔
رپورٹس کے مطابق ان طلبہ نے فلسطین کے حق میں احتجاجی مظاہروں میں شرکت کی تھی، جبکہ بعض کا قصور صرف اتنا تھا کہ انہوں نے غزہ کی حمایت میں سوشل میڈیا پر پوسٹس کی تھیں۔ امریکی حکام نے ان پر کیمپس میں مبینہ یہود مخالف سرگرمیوں اور حماس سے ہمدردی کا الزام عائد کیا۔
طلبہ، قانونی ماہرین اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے ان الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے ویزے منسوخی کے فیصلے کو اظہار رائے کی آزادی پر حملہ قرار دیا ہے۔
یاد رہے کہ امریکہ میں فلسطینیوں کے حق میں آواز اٹھانے والے طلبہ کے ویزے منسوخ کیے جانا ایک گہری سیاسی حکمتِ عملی کی عکاسی کرتا ہے۔ امریکہ طویل عرصے سے اسرائیل کا مضبوط ترین اتحادی رہا ہے، اور اس اتحاد کے پیش نظر وہاں فلسطینیوں کی حمایت کو اکثر اسرائیل دشمنی یا یہاں تک کہ یہود دشمنی (Antisemitism) کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔
حالیہ دنوں میں امریکہ کی بڑی جامعات میں غزہ میں جاری اسرائیلی مظالم کے خلاف طلبہ نے احتجاجی مظاہرے کیے، اور سوشل میڈیا پر بھی فلسطینی عوام کی حمایت میں آواز بلند کی گئی، جس کے بعد امریکی امیگریشن حکام نے ان سرگرمیوں کو بنیاد بناتے ہوئے تقریباً 1500 غیر ملکی طلبہ کے ویزے منسوخ کر دیے۔
حکومت کا الزام ہے کہ ان مظاہرین نے کیمپس میں یہود دشمنی اور دہشت گرد تنظیم حماس کی حمایت کی، حالانکہ طلبہ، وکلا اور انسانی حقوق کے کارکنان ان الزامات کو بے بنیاد اور آزادی اظہار رائے کے خلاف قرار دیتے ہیں۔
امریکہ میں آزادی اظہار کی جو روایت قائم ہے، وہ فلسطین کے معاملے پر یک طرفہ ہو جاتی ہے، جہاں اسرائیل پر تنقید کو فوری طور پر نفرت انگیزی یا سکیورٹی خطرہ سمجھا جاتا ہے۔