کراچی، ایف آئی اے سائبر کرائم وِنگ نے مصطفیٰ عامر قتل کے مقدمے میں ملوث ملزم ارمغان کے خلاف پہلا مقدمہ درج کر لیا ہے، جس میں بہت اہم اور ہوش اُڑانے والے انکشافات سامنے آئے ہیں۔
تحقیقات کے مطابق ارمغان صوبائی دارلحکومت کراچی کے پوش علاقے ڈی ایچ اے میں ایک غیر قانونی کال سینٹر چلا رہا تھا، جہاں سے لوگوں کو دھوکہ دینا، ان کی شناخت چوری کرنا، فشنگ، ہراساں کرنا اور بھتہ خوری جیسے جرائم کیے جا رہے تھے۔
ایف آئی آر کے متن کے مطابق ارمغان نے اپنے ملازمین کو یہ سکھایا کہ کس طرح لوگوں کا ذاتی اور مالی ڈیٹا حاصل کرنا ہے، جیسے کہ ان کا نام، والدہ کا نام، تاریخِ پیدائش، کریڈٹ کارڈ کی تفصیلات اور سوشل سیکیورٹی نمبر وغیرہ۔ یہ سارا کام ارمغان، جسے "ایلیکس باس” کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، کی ہدایات پر ہوتا تھا۔
اینٹی وائلنٹ کرائم سیل نے چھاپے کے دوران 63 لیپ ٹاپ قبضے میں لے لیے، جنہیں فارنزک ٹیسٹ کے لیے بھیجا گیا، ان لیپ ٹاپس میں کئی اہم ثبوت ملے جن میں خاص سافٹ ویئر، مختلف ویب پورٹلز تک رسائی کے ریکارڈ، وی پی این کا استعمال اور ٹریڈ مارک ڈیٹا شامل ہیں، کچھ مخصوص فائلیں جیسے “لاگز12” اور “لاگز04” بھی سامنے آئیں جو فراڈ میں استعمال ہوئی تھیں۔
ایف آئی اے کا بتانا ہے کہ ارمغان کے ملازمین متاثرہ افراد کا ذاتی اور بینکنگ ڈیٹا چوری کر کے اسے پہنچاتے تھے، پھر ان معلومات کے ذریعے لوگوں کے آن لائن اکاؤنٹس سے رقم نکال کر ارمغان کے بتائے گئے بینک یا کرپٹو اکاؤنٹس میں منتقل کی جاتی تھی۔
رپورٹ کے مطابق یہ ساری رقم بعد میں کرپٹو کرنسی کے ذریعے بھی مقامی بینک اکاؤنٹس میں منتقل کی گئی، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ پورا نیٹ ورک ایک باقاعدہ منظم فراڈ کا حصہ تھا۔