پشاور، وزارت داخلہ کے لاپتہ ملازم کے والد نے عدالت میں فریاد کرتے ہوئے کہا کہ اگر میرا بیٹا مجرم ہے تو اسے قانون کے مطابق سزا دی جائے، مگر یوں لاپتہ کر دینا ناانصافی ہے۔
پشاور ہائی کورٹ میں وزارت داخلہ کے کمپیوٹر آپریٹر محمد عثمان کی گمشدگی سے متعلق کیس کی سماعت قائم مقام چیف جسٹس ایس ایم عتیق شاہ نے کی، سماعت کے دوران لاپتہ ملازم کے والد، وکیل، ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل اور ڈپٹی اٹارنی جنرل عدالت میں پیش ہوئے۔
درخواست گزار کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ محمد عثمان کو پولیس کے ساتھ سفید لباس میں موجود افراد گھر سے لے گئے تھے، اور وہ گزشتہ 7 ماہ سے لاپتہ ہے۔
لاپتہ ملازم کے والد نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ ہمارا خاندان ملک سے وفادار ہے، اور ہم کبھی ریاست کے خلاف نہیں جا سکتے، اگر میرے بیٹے نے کوئی غلطی کی ہے تو عدالت سزا دے، مگر یوں اسے بغیر کسی اطلاع کے غائب کرنا غیر قانونی اور غیر اخلاقی ہے۔
قائم مقام چیف جسٹس نے والد سے سوال کیا کہ آپ کے بیٹے نے ایسا کیا کیا کہ اُسے اٹھا لیا گیا؟ والد نے جواب دیا کہ اگر اس نے کچھ کیا ہے تو قانون کے تحت کارروائی کی جائے، مگر خفیہ طریقے سے لاپتہ نہ کیا جائے۔
عدالت نے تمام دلائل سننے کے بعد وفاقی اور صوبائی حکومت سمیت پولیس سے واقعے کی رپورٹ طلب کر لی تاکہ معاملے کا مکمل جائزہ لیا جا سکے۔