اسلام آباد، ملک بھر میں خواتین کے ملبوسات کی قیمتوں میں اضافے کا معاملہ قومی اسمبلی میں زیر بحث آ گیا، وقفہ سوالات کے دوران رکن قومی اسمبلی شگفتہ جمانی نے مہنگے کپڑوں کے خلاف آواز اٹھائی۔
شگفتہ جمانی کا کہنا تھا کہ ملکی ٹیکسٹائل انڈسٹری برانڈز کا نام استعمال کر کے قیمتیں بڑھا رہی ہے، وہ سوٹ جو پہلے 7 سے 8 ہزار روپے میں دستیاب تھے، اب 20 ہزار روپے میں فروخت کیے جا رہے ہیں، انہوں نے سوال اٹھایا کہ آخر ان قیمتوں کو کنٹرول کرنے والا کون ہے؟ برانڈ کے نام پر من مانی کیوں ہو رہی ہے؟
انہوں نے کہا کہ آج کل ہر شخص جو کاروبار شروع کرتا ہے، وہ ٹیکسٹائل میں قدم رکھ دیتا ہے اور خود کو برانڈ ظاہر کرتا ہے، قیمتوں میں اس بے تحاشہ اضافے نے عام خواتین کی مشکلات بڑھا دی ہیں۔
اس حوالے سے پارلیمانی سیکرٹری برائے تجارت ذوالفقار علی بھٹی نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ حکومت کا لوکل اور ریٹیل مارکیٹ پر براہ راست کنٹرول نہیں ہے، ملبوسات کی قیمتوں میں اضافے کی ایک بڑی وجہ بجلی اور گیس کے نرخوں میں اضافہ بھی ہو سکتا ہے، تاہم اس مسئلے پر جامع پالیسی کے لیے مشاورت کی جا سکتی ہے۔
خواتین نے مطالبہ کیا ہے کہ کپڑوں کی قیمتوں پر چیک اینڈ بیلنس کا کوئی موثر نظام وضع کیا جائے تاکہ عام شہریوں کو ریلیف مل سکے۔
خواتین کے لیے بڑھتی ہوئی مہنگائی کے پیش نظر حکومت کو ضروری اقدامات کرنے ہوں گے۔ اسی سلسلے میں حکومت پنجاب کی جانب سے حاملہ خواتین کے لیے 23 ہزار روپے مالی معاونت کا اعلان بھی کیا گیا ہے، جس کی تفصیلات اس خبر میں دیکھی جا سکتی ہیں۔