کاہنہ سے مبینہ اغوا ہونے والی فوزیہ بی بی کی بازیابی کے سلسلے میں لاہور ہائیکورٹ نے درخواست نمٹاتے ہوئے پولیس کو ہدایت کی کہ وہ 15 روز میں تفتیش کی پراگرس رپورٹ عدالت میں پیش کرے۔
سماعت کے دوران اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل وقاص عمر نے بتایا کہ عدالت کے حکم پر معاملے کی ایڈشنل آئی جی نے انکوائری کی، تاہم چیف جسٹس عالیہ نیلم نے ریمارکس دیے کہ پولیس کی تحویل میں لی گئی فائل خالی ہے اور بعض اوقات پولیس فائل سے ضروری شواہد نکال دیتی ہے۔ چیف جسٹس نے سخت کہا کہ "یہ چیف جسٹس کی عدالت ہے، کوئی مذاق نہیں” اور ایسے غیر سنجیدہ اہلکاروں کو پولیس محکمے میں نہیں ہونا چاہیے۔
سرکاری وکیل نے بتایا کہ انکوائری کے بعد تفتیشی کو برطرف کر کے پیکا کے تحت کارروائی کی سفارش کی گئی ہے اور پولیس فوزیہ کی بازیابی کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کر رہی ہے۔ عدالت نے درخواست گزار کے وکیل سے استفسار کیا کہ فوزیہ کا شناختی کارڈ کیوں نہیں بنایا گیا، جس پر وکیل نے لاعلمی کا جواز پیش کیا۔ چیف جسٹس نے مزید کہا کہ فیملی ٹری میں فوزیہ کا نام شامل نہیں ہے، اس لیے دستاویزی ثبوت فراہم کریں کہ وہ درخواست گزار کی بیٹی ہے۔
لاہور ہائیکورٹ: لاپتا فوزیہ بی بی کی بازیابی کیلئے آئی جی پنجاب کو 10 روز کی مہلت
سماعت میں وکیل نے بتایا کہ فوزیہ کی ایک تصویر اور بھائی کی شادی کی ویڈیو پولیس کو فراہم کی گئی ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ویڈیو بنانے کا علم تھا مگر شناختی کارڈ نہ بنوانا ناقابل قبول ہے۔ چیف جسٹس نے وکیل کو ہدایت کی کہ میڈیا کے لیے غیر ضروری بیان نہ دیں اور کیس کی سنجیدگی کو مدنظر رکھیں۔
لاہور ہائیکورٹ کی چیف جسٹس عالیہ نیلم نے حمیداں بی بی کی درخواست پر سماعت کی اور پولیس کو فوری کارروائی جاری رکھنے کی تاکید کی۔
