اسلام آباد، گورنر خیبرپختونخوا فیصل کریم کنڈی نے ایک نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ صوبائی اسمبلی میں اگر اپوزیشن کو حکومت پر عددی برتری حاصل ہو جائے تو وہ تحریک عدم اعتماد لانے کا آئینی و جمہوری حق محفوظ رکھتے ہیں،اس وقت اسمبلی میں اپوزیشن کے پاس 52 یا 54 ارکان ہیں، اور جس دن یہ تعداد حکومتی اتحاد سے بڑھ گئی تو وہ تحریک عدم اعتماد پیش کر سکتے ہیں۔
گورنر نے کہا کہ ان کی جماعت وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کے خلاف کسی قسم کی سازش نہیں کر رہی اور یہ عمل مکمل طور پر آئینی دائرے میں رہتے ہوئے کیا جائے گا،پی ٹی آئی نے ماضی میں بھی باتیں کیں مگر جب ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی تو سب نے نتیجہ دیکھ لیا۔ اگر پی ٹی آئی کے پاس واقعی وفاق، پنجاب، سندھ اور بلوچستان میں اکثریت موجود ہے تو وہ بھی اعتماد کے ووٹ یا تحریک عدم اعتماد کے ذریعے اپنی پوزیشن واضح کر سکتی ہے۔
فیصل کریم کنڈی نے مولانا فضل الرحمان سے رابطوں کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ وہ ان سے وقتاً فوقتاً سیاسی ملاقاتیں کرتے رہتے ہیں، تاہم علیمہ خان کے حالیہ بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ خود عمران خان کو بھی سیاسی میدان سے مائنس کرنے کی بات کر چکی ہیں، لہٰذا ان کے بیانات کا اپنا ایک مخصوص سیاسی پس منظر ہوتا ہے۔
یاد رہے کہ اس وقت خیبرپختونخوا اسمبلی میں حکومت پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ اراکین پر مشتمل ہے، جبکہ اپوزیشن دھڑوں میں مسلم لیگ (ن)، جے یو آئی (ف)، پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتیں شامل ہیں۔ گزشتہ ہفتوں میں سامنے آنے والے سیاسی بیانات سے واضح ہے کہ خیبرپختونخوا میں سیاسی درجہ حرارت آہستہ آہستہ بڑھتا جا رہا ہے، تاہم مسلم لیگ (ن) کے رہنما عرفان صدیقی نے یہ کہہ کر صورت حال کو متوازن رکھنے کی کوشش کی کہ کے پی میں اس وقت عدم اعتماد کی کوئی تجویز زیر بحث نہیں اور صوبے کو بحران میں نہیں دھکیلا جائے گا۔