اسلامی نظریاتی کونسل نے 18 سال سے کم عمر شادی پر پابندی کا بل شرعی اصولوں سے متصادم قرار دے کر مسترد کر دیا، اجلاس میں دیگر بلز بھی زیر غور آئے۔
اسلامی نظریاتی کونسل نے 18 سال سے کم عمر بچوں کی شادی پر پابندی سے متعلق قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظور کردہ بل کو متفقہ طور پر مسترد کردیا ہے۔
کونسل کے مطابق یہ قانون اسلامی اصولوں سے مطابقت نہیں رکھتا اور شریعت کی روشنی میں اس کی منظوری ممکن نہیں، آج کونسل کا اہم اجلاس چیئرمین ڈاکٹر راغب حسین نعیمی کی صدارت میں منعقد ہوا، جس میں متعدد حساس اور سماجی نوعیت کے قانونی مسودات پر تفصیلی غور کیا گیا۔
اجلاس کے دوران کم عمری کی شادی جیسے اہم سماجی مسئلے پر بحث کی گئی، اور متفقہ رائے کے ساتھ بل کو غیر شرعی قرار دے کر مسترد کیا گیا، اس کے علاوہ اجلاس کے ایجنڈے میں تھیلیسیمیا کے لیے لازمی اسکریننگ بل 2025، قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے مختلف پراجیکٹس اور اسکیمز کی شرعی حیثیت سے متعلق استفسار، خلع کی صورت میں مہر کے حوالے سے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کا شرعی جائزہ، بچوں کی شادی کے امتناع کا بل 2025ء برائے اسلام آباد، خیبرپختونخواہ حکومت کی جانب سے پیش کیا گیا میرج ریسٹرینٹ ایکٹ، اور مسلم عائلی قوانین (ترمیمی) بل 2025ء بھی شامل تھے۔ کونسل نے ان تمام امور کا شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے باریک بینی سے جائزہ لیا اور اپنی تجاویز مرتب کیں۔
یاد رہے کہ پاکستان میں گزشتہ چند سالوں کے دوران بچوں کی شادی کو روکنے کے لیے مختلف قانون سازی کی کوششیں کی جاتی رہی ہیں۔ سندھ میں 18 سال سے کم عمر میں شادی پر پہلے ہی پابندی عائد کی جاچکی ہے، جبکہ دیگر صوبے اور وفاقی حکومت بھی اس حوالے سے قانون سازی میں مصروف رہے ہیں۔
تاہم اسلامی نظریاتی کونسل اس معاملے پر پہلے بھی مؤقف اختیار کرچکی ہے کہ بلوغت اور نکاح کی شرعی تعریف کو مدنظر رکھتے ہوئے کسی بھی قانون کو اسلامی اصولوں کے تابع رکھا جانا ضروری ہے۔ کونسل کے اس فیصلے سے موجودہ قانون سازی کی سمت اور اس کے نفاذ پر ممکنہ اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
اسلامی نظریاتی کونسل کے حالیہ فیصلے کی روشنی میں، بغیر اجازت دوسری شادی پر نکاح ختم کرنے کا حق غیر اسلامی قرار دیا گیا، جس پر معاشرتی اور قانونی سطح پر مباحثہ جاری ہے۔