فیڈرل شریعت کورٹ میں 18 سال سے کم عمر لڑکی کی شادی کے قانون کو چیلنج کیا گیا ہے، درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ یہ قانون قرآن و حدیث کی تعلیمات کے منافی ہے اور اسے کالعدم قرار دیا جائے۔ عدالت سے قانون کے تحت مقدمات درج کرنے پر پابندی کی درخواست کی گئی ہے۔
لاہور، 18 سال سے کم عمر لڑکی کی شادی کے قانون کو فیڈرل شریعت کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا ہے۔
شہزادہ عدنان نامی شہری نے اپنے وکیل مدثر چودھری ایڈووکیٹ کے ذریعے عدالت میں درخواست دائر کی ہے، جس میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ شادی سے متعلق موجودہ قانون قرآن و حدیث کی تعلیمات کے خلاف ہے۔
درخواست گزار نے کہا کہ چائلڈ میرج ریسٹرین بل 2025 خلاف آئین بنایا گیا ہے اور اس قانون کی سزا قید بامشقت رکھی گئی ہے جو کہ آئین اور شرعی تعلیمات کے خلاف ہے۔
درخواست میں عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ یہ قانون قرآن مجید اور سنت نبوی ﷺ کی روشنی میں نہیں بنتا، اس لیے اسے ختم کیا جائے۔ ساتھ ہی درخواست میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ریاست کو اس قانون کے تحت مقدمات درج کرنے سے روکا جائے تاکہ 18 سال سے کم عمر لڑکیوں کی شادی پر کوئی قانونی کارروائی نہ ہو۔ درخواست گزار کا کہنا ہے کہ قرآن و حدیث کی تعلیمات میں کم عمر شادی کی اجازت ہے اور اس قانون کے ذریعے مذہبی احکامات کی کھلی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔
فیڈرل شریعت کورٹ سے توقع کی جا رہی ہے کہ وہ اس درخواست پر غور کرے گی اور قرآن و حدیث کی روشنی میں فیصلہ دے گی، جو کہ ملک میں شادی کے قانون کی تشکیل اور اس پر عملدرآمد کے لیے رہنمائی کا باعث بنے گا۔
یاد رہے کہ پاکستان میں 18 سال سے کم عمر لڑکی کی شادی پر پابندی چائلڈ میرج ریسٹرین بل کے تحت عائد کی گئی ہے، جس کا مقصد کم عمر لڑکیوں کی شادی کو روکنا اور ان کے حقوق کا تحفظ کرنا ہے۔ تاہم اس قانون کو کچھ حلقوں نے مذہبی تعلیمات کے منافی قرار دیتے ہوئے چیلنج کیا ہے، جو ایک اہم بحث کا موضوع بنا ہوا ہے۔