انسدادِ دہشت گردی کی منتظم عدالت نے چنیسر ٹاؤن کے چیئرمین فرحان غنی اور دیگر ملزمان کو 28 اگست تک جسمانی ریمانڈ پر پولیس کی تحویل میں دے دیا ہے۔ یہ فیصلہ ایک تشدد اور دھمکیوں سے متعلق کیس کی ابتدائی سماعت کے بعد سنایا گیا۔
سماعت کے دوران جج نے تفتیشی افسر سے استفسار کیا کہ آیا ملزمان کو پولیس نے گرفتار کیا ہے یا وہ خود حاضر ہوئے۔ تفتیشی افسر نے جواب دیا کہ تمام ملزمان خود تھانے آئے تھے۔ اس پر جج نے حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے ملزمان کے نام اور الزامات کی تفصیلات طلب کیں۔
تفتیشی افسر کے مطابق، ملزمان پر الزام ہے کہ انہوں نے مدعی مقدمہ سمیت سرکاری اہلکاروں پر تشدد کیا، جو موقع پر فائبر آپٹک کیبل بچھانے کا کام کر رہے تھے۔ پراسیکیوٹر نے بتایا کہ متاثرہ افراد پولیس کی نگرانی میں کام کر رہے تھے، تاہم جب عدالت نے پوچھا کہ یہ ملازمین کس ادارے سے تعلق رکھتے تھے، تو پراسیکیوٹر کوئی واضح جواب نہ دے سکے۔
پراسیکیوشن نے عدالت سے 14 دن کا ریمانڈ طلب کیا تاکہ معاملے کی تفتیش مکمل کی جا سکے، تاہم عدالت نے فی الحال 28 اگست تک جسمانی ریمانڈ کی منظوری دی۔
سماعت کے دوران فرحان غنی نے عدالت میں بیان دیتے ہوئے خود کو بے گناہ قرار دیا اور کہا کہ “میں نے کوئی تشدد نہیں کیا، مجھ پر جھوٹا الزام لگایا گیا ہے۔ میں بطور چیئرمین صرف یہ پوچھنے گیا تھا کہ سرکاری سڑک کھودنے کی اجازت کس نے دی؟”
وزیر بلدیات سندھ سعید غنی کے بھائی فرحان غنی راہداری ریمانڈ پر پولیس کے حوالے
انہوں نے مزید کہا کہ "میرے پاس اختیار ہے کہ میں غیر قانونی کام روکوں، لیکن مجھ پر الٹا مقدمہ درج کر دیا گیا۔”
عدالت نے یہ بھی سوال اٹھایا کہ اس کیس میں انسداد دہشت گردی ایکٹ (ATA) کی دفعات کیوں شامل کی گئیں؟ جس پر پراسیکیوٹر نے مؤقف اپنایا کہ متاثرہ افراد سرکاری ملازم تھے اور ان پر تشدد کیا گیا، اس لیے اے ٹی اے لاگو ہوتی ہے۔
عدالت نے کیس کی مزید سماعت ملتوی کرتے ہوئے پولیس کو ہدایت کی کہ اگلی پیشی پر پیش رفت رپورٹ اور تمام ملزمان کو عدالت میں دوبارہ پیش کیا جائے۔