سوات میں دریائے سوات کے کنارے ناشتہ کرنے والے متاثرہ فیملی کے ہوٹل کو ضلعی انتظامیہ نے منہدم کر دیا ہے۔ یہ کارروائی تجاوزات کے خلاف جاری گرینڈ آپریشن کا حصہ ہے۔
ضلعی انتظامیہ نے بتایا کہ بائی پاس اور فضاگھٹ کے علاقوں میں اب تک 26 ہوٹل اور ریسٹورنٹس کے خلاف کارروائی کی جا چکی ہے، جبکہ سنگوٹہ تک مزید 49 ہوٹلز اور ریسٹورنٹس کی نشاندہی کے بعد ان کے خلاف کارروائی کی جا رہی ہے۔ وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا نے واضح کیا ہے کہ تجاوزات کے خلاف آپریشن بلا تفریق اور کسی دباؤ کے بغیر جاری رکھا جائے گا اور اس کا دائرہ وسیع کیا جائے گا۔
دریائے سوات میں سیلابی ریلے میں بہنے والے 17 افراد میں سے ایک بچہ تاحال لاپتہ ہے۔ ریسکیو آپریشن چوتھے روز بھی جاری ہے۔ حادثے کے روز چار افراد کو بچا لیا گیا تھا، جبکہ تین روز قبل 12 افراد کی لاشیں نکالی جا چکی ہیں۔
سابق ڈسٹرکٹ ایمرجنسی آفیسر ریسکیو نے واقعے کی تحقیقاتی کمیٹی کو اپنا بیان جمع کراتے ہوئے بتایا کہ ریسکیو ٹیم نے واقعے کے 15 منٹ کے اندر غوطہ خور اور کشتی کے ذریعے بچاؤ کی کوشش شروع کی تھی، مگر پانی کا بہاؤ بہت تیز تھا۔ خوازہ خیلہ پل کے مقام پر پانی کا بہاؤ 77 ہزار کیوسک سے تجاوز کر چکا تھا۔
سابق ریسکیو آفیسر نے کہا کہ جو کام 45 منٹ میں ممکن تھا، وہ کر لیا گیا، اور اس دوران تین سیاحوں کو بچایا گیا۔ تاہم قیمتی جانیں بچانے میں ناکامی پر عوام اور سوشل میڈیا پر شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔ شاہد آفریدی نے بھی اس واقعے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ذمہ داروں کو خبردار کیا ہے کہ عوام کی جانوں سے کھیلنا ناقابلِ قبول ہے۔