اسلام آباد: سپریم کورٹ نے طلاق یافتہ بیٹی کو پنشن سے محروم کرنے سے متعلق سندھ حکومت کے سرکلر کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا۔
عدالت نے قرار دیا کہ پنشنر والد کی وفات کے بعد بیٹی کو صرف اس کی ازدواجی حیثیت کی بنیاد پر پنشن کے حق سے محروم کرنا آئین کے آرٹیکلز 14، 25 اور 27 کی خلاف ورزی ہے۔
جسٹس عائشہ ملک کی جانب سے 10 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کیا گیا، جس میں کہا گیا کہ مذکورہ سرکلر ابتدا سے ہی کسی قانونی حیثیت کا حامل نہیں، اور اسے پنشن کے حق کو ختم کرنے کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا۔
جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں ڈویژن بینچ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ خواتین کو صرف ان کی ازدواجی حیثیت کی بنیاد پر مالیاتی حقوق سے انکار نہیں کیا جا سکتا، اور یہ طرزِ عمل ایک منظم صنفی امتیاز کی عکاسی کرتا ہے۔
فیصلے میں عالمی مثالوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ بھارت اور بنگلہ دیش جیسے ممالک بھی بیوہ یا طلاق یافتہ خواتین کو سماجی تحفظ کے تحت پنشن فراہم کرتے ہیں، جو کہ ایک بنیادی انسانی اور معاشی حق ہے۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں واضح کیا کہ پنشن کی بروقت ادائیگی انتظامی نہیں بلکہ آئینی ذمہ داری ہے، اور اسے صرف شادی یا طلاق جیسے عوامل سے مشروط کرنا غیر منصفانہ اور امتیازی سلوک ہے۔
یہ فیصلہ نہ صرف خواتین کے مالیاتی حقوق کے تحفظ کی جانب ایک اہم قدم ہے بلکہ ملک میں صنفی مساوات کے فروغ کے لیے عدلیہ کے فعال کردار کو بھی اجاگر کرتا ہے۔