جنوبی ایشیا نیوکلیئر تصادم کے دہانے پر، کشیدگی کی جڑ مسئلہ کشمیر ہے، جنرل ساحر شمشاد مرزا

تازہ ترین خبروں اور تبصروں کیلئے ہمارا وٹس ایپ چینل جوائن کریں

جنرل ساحر شمشاد مرزا نے شنگریلا ڈائیلاگ میں خطاب کے دوران خبردار کیا ہے کہ جنوبی ایشیا میں موجود حل طلب تنازعات نیوکلیئر تصادم کا باعث بن سکتے ہیں۔ انہوں نے خطے کے امن کے لیے مسئلہ کشمیر کے حل اور بھارت سے باعزت مذاکرات پر زور دیا۔

latest urdu news

سنگاپور میں جاری شنگریلا ڈائیلاگ کے دوران چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل ساحر شمشاد مرزا نے جنوبی ایشیا میں موجود غیر حل شدہ تنازعات کو عالمی امن کے لیے سنگین خطرہ قرار دیتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ خطے میں کسی بھی وقت نیوکلیئر تصادم کی نوبت آ سکتی ہے۔

انہوں نے زور دیا کہ جنوبی ایشیا، جہاں دو اہم جوہری طاقتیں پاکستان اور بھارت موجود ہیں، کسی صورت عالمی سلامتی کے مباحثے سے الگ نہیں رکھا جا سکتا۔

اپنے خطاب میں جنرل ساحر شمشاد مرزا نے کہا کہ جنوبی ایشیا میں مسئلہ کشمیر بنیادی تنازع ہے، جس کے باعث دونوں ممالک کے درمیان مستقل کشیدگی پائی جاتی ہے۔ ان کے مطابق یہ مسئلہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل ہونا چاہیے کیونکہ یہی جنوبی ایشیائی امن کی بنیاد ہو سکتا ہے۔

انہوں نے واضح کیا کہ پاکستان بھارت سے باعزت، برابری اور احترام پر مبنی دیرپا امن چاہتا ہے، لیکن یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک مسئلہ کشمیر کو نظر انداز کیا جاتا رہے۔

جنرل شمشاد مرزا نے فورم پر آٹھ نکات پر مبنی تجاویز پیش کیں جن میں ادارہ جاتی پروٹوکولز کو فعال بنانا، ہاٹ لائنز کو مؤثر بنانا، کشیدگی میں کمی کے طے شدہ طریقہ کار اپنانا، اور مشترکہ کرائسس مینجمنٹ مشقوں کا انعقاد شامل ہے۔

ان کے مطابق موجودہ حالات میں ایڈہاک اقدامات ناکافی ہیں اور ان کی جگہ مضبوط، مربوط اور مساوی بنیادوں پر قائم مکالماتی نظام کی ضرورت ہے۔

انہوں نے خطے میں مصنوعی ذہانت، سائبر حملے اور جدید جنگی نگرانی جیسے عوامل کو اسٹریٹجک فیصلوں پر اثر انداز ہونے والے نئے خطرات قرار دیا اور زور دیا کہ ان کا تدارک کرائسس مینجمنٹ نظام کا لازمی جزو ہونا چاہیے۔

ان کے مطابق آج کی دنیا میں ریاستی خودمختاری، انسانی حقوق اور انصاف جیسے اصولوں کو عالمی طاقتیں مفادات پر قربان کر رہی ہیں، اس لیے اعتماد پر مبنی مؤثر اسٹریٹجک کمیونیکیشن وقت کی اہم ضرورت ہے۔

بھارت کی طرف سے پانی کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کے اقدام کو جنرل شمشاد مرزا نے بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا اور انتباہ کیا کہ پاکستان کے پانی کو روکنے یا موڑنے کی کوشش قومی سلامتی کمیٹی کے مطابق ایک جنگی اقدام تصور کی جائے گی۔

انہوں نے بھارت پر اقوام متحدہ کے چارٹر کی خلاف ورزی کا الزام بھی عائد کیا اور کہا کہ عام شہریوں اور عبادت گاہوں کو نشانہ بنانا کسی صورت قابل قبول نہیں۔

انہوں نے کہا کہ پہلگام کے بعد جو صورتحال پیدا ہوئی، اس سے خطے کی مجموعی ترقی شدید خطرے میں ہے۔ بحرانوں سے نمٹنے کے مؤثر نظام کی عدم موجودگی کی وجہ سے عالمی طاقتیں بروقت مداخلت کرنے میں ناکام رہتی ہیں۔ پاکستان مسلسل بھارت اور عالمی برادری سے باضابطہ مذاکراتی نظام کی بحالی کا مطالبہ کرتا رہا ہے، کیونکہ برابری، اعتماد اور حساسیت کے بغیر کوئی بھی بحران مؤثر طور پر حل نہیں ہو سکتا۔

یاد رہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان مسئلہ کشمیر کئی دہائیوں سے کشیدگی کی بڑی وجہ بنا ہوا ہے، اور دونوں ممالک اس مسئلے پر تین بڑی جنگیں بھی لڑ چکے ہیں۔ 1998 میں جوہری تجربات کے بعد یہ تنازع اور بھی حساس ہو چکا ہے۔ ہر بار جب لائن آف کنٹرول پر جھڑپیں یا کشیدگی بڑھتی ہے، عالمی برادری کو خدشہ لاحق ہو جاتا ہے کہ کہیں یہ کشیدگی کسی بڑے تصادم میں نہ بدل جائے۔ شنگریلا ڈائیلاگ جیسے بین الاقوامی فورمز پر پاکستانی قیادت کی طرف سے یہ تنبیہ ایک اہم سفارتی اشارہ سمجھی جا رہی ہے۔

شیئر کریں:

ہمیں فالو کریں

frontpage hit counter