سورج کی روشنی پر بھی ٹیکس، سولر مزید مہنگا!

تازہ ترین خبروں اور تبصروں کیلئے ہمارا وٹس ایپ چینل جوائن کریں

ایک ایسا ملک جہاں ہر صبح مہنگائی کی نئی چبھن کے ساتھ طلوع ہوتی ہے، وہاں امید کی ایک کرن تھی سورج کی روشنی۔

وہ روشنی جس کا نہ بل آتا ہے، نہ بند ہوتی ہے، نہ ہی لوڈشیڈنگ کا بہانہ سناتی ہے۔ سولر پینلز متوسط طبقے کے لیے ایک نئی زندگی کی نوید بن چکے تھے۔ لیکن افسوس، اب حکومت نے اس امید پر بھی ٹیکس کا پردہ تاننے کا منصوبہ بنا لیا ہے۔

latest urdu news

وفاقی حکومت نے مالی سال 2025-26 کے بجٹ میں درآمد شدہ سولر پینلز پر 18 فیصد سیلز ٹیکس عائد کرنے کی تجویز پیش کر دی ہے۔

یہ اعلان وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے قومی اسمبلی میں بجٹ تقریر کے دوران کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ سیلز ٹیکس نظام میں اصلاحات کے تحت یہ قدم اٹھایا جا رہا ہے تاکہ مقامی اور درآمدی سولر پینلز کے درمیان مساوی مسابقت کا ماحول پیدا کیا جا سکے۔

ان کے مطابق، اس اقدام سے نہ صرف ٹیکس نظام میں توازن آئے گا بلکہ مقامی صنعت کو بھی فروغ ملے گا۔ حکومت کی پالیسی ہے کہ درآمدات پر انحصار کم کرتے ہوئے مقامی پیداوار کی حوصلہ افزائی کی جائے، اور یہ فیصلہ اسی پالیسی کا حصہ ہے۔

بظاہر یہ فیصلہ مقامی سولر انڈسٹری کو فروغ دینے کے لیے کیا جا رہا ہے، لیکن کیا یہ عوام کے لیے بھی فائدہ مند ہوگا؟

خاص طور پر ان کے لیے جو پہلے ہی مہنگائی کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں؟

پاکستان میں بجلی کی قیمتیں پہلے ہی آسمان کو چھو رہی ہیں، اور لوڈشیڈنگ کی صورتحال نے عوام کی زندگی اجیرن بنا رکھی ہے۔

ایسے میں ہزاروں گھرانے سولر پینلز کی طرف متوجہ ہو رہے تھے تاکہ مہنگی بجلی سے نجات حاصل کر سکیں۔ سولر سسٹمز نہ صرف بجلی کے بلوں میں نمایاں کمی لاتے ہیں بلکہ طویل مدتی طور پر ماحول دوست اور پائیدار حل بھی ہیں۔ تاہم، 18 فیصد سیلز ٹیکس عائد ہونے کی صورت میں درآمدی سولر پینلز کی قیمتوں میں بڑا اضافہ ہو سکتا ہے۔

پاکستان سولر ایسوسی ایشن کے چیئرمین وقاص موسیٰ نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ اگر بجٹ تجاویز منظور ہو گئیں تو سولر پینلز کی درآمد کے وقت ہی 18 فیصد ٹیکس وصول کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ 3.5 فیصد مزید ٹیکس اور 4 فیصد نان فائلر ٹیکس بھی عائد ہوگا۔ یوں مجموعی طور پر نان فائلر کو 25.5 فیصد اور فائلر کو 21.5 فیصد ٹیکس ادا کرنا ہوگا۔

وقاص موسیٰ نے مزید کہا کہ جس سولر پینل کی قیمت اس وقت 32 روپے فی واٹ ہے، ٹیکس کے نفاذ کے بعد وہ بڑھ کر 37 سے 38 روپے فی واٹ ہو سکتی ہے۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ اگر ٹیکس عائد کرنا ضروری ہے تو حکومت سولر انڈسٹری کے نمائندوں سے مشاورت کرے، اور یہ معاملہ سنجیدگی سے زیر بحث لایا جائے۔ یکدم 25 فیصد تک کا ٹیکس عائد کرنا نہ صرف صارفین بلکہ حکومت کے لیے بھی مشکل امتحان ہوگا۔

وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے سولر پر ٹیکس کے حکومتی فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر یہ منصوبے درست نہ ہوئے تو پیپلز پارٹی وفاقی بجٹ کی حمایت نہیں کرے گی۔

پیپلز پارٹی کی ترجمان شازیہ مری نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر لکھا: ’’بالکل، پاکستان پیپلز پارٹی سولر پینلز پر 18 فیصد ٹیکس سپورٹ نہیں کرے گی۔‘‘

یاد رہے کہ پی ٹی آئی حکومت کے دوران بھی 17 فیصد ٹیکس عائد کیا گیا تھا، جو شہباز شریف کی حکومت نے ختم کر دیا تھا۔

وزیر اعظم شہباز شریف نے اُس وقت کہا تھا کہ یہ ٹیکس گرین انرجی کے فروغ کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ لیکن اب اسی حکومت نے دوبارہ ٹیکس لگا دیا ہے۔

وفاقی وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے ایک نجی ٹی وی پر گفتگو میں کہا کہ ٹیکس صرف درآمدی پینلز پر ہے تاکہ مقامی سطح پر بننے والے سولر پینلز کی حوصلہ افزائی ہو سکے، جو سالانہ ایک گیگا واٹ بجلی بنا سکتے ہیں۔ البتہ مقامی پینلز کی پائیداری اور کوالٹی پر ماہرین سوالات اٹھا رہے ہیں۔

بین الاقوامی کمپنیاں دہائیوں سے سولر پینلز بنا رہی ہیں اور ان کے نتائج سالوں پر محیط تحقیق سے ثابت شدہ ہیں، لیکن پاکستانی پینلز کی ایفیشنسی پر تاحال اعتماد قائم نہیں ہو سکا۔

فیڈریشن آف پاکستان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (FPCCI) نے بھی حکومت کے اس فیصلے کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور وفاقی بجٹ کو کاروباری طبقے کے لیے غیر تسلی بخش قرار دیا ہے۔

شیئر کریں:

ہمیں فالو کریں

frontpage hit counter