سنی اتحاد کونسل مخصوص نشستوں کی حقدار نہیں: جسٹس جمال مندوخیل

تازہ ترین خبروں اور تبصروں کیلئے ہمارا وٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد، سپریم کورٹ میں سنی اتحاد کونسل (SIC) کو مخصوص نشستوں کی الاٹمنٹ سے متعلق نظرثانی درخواست پر اہم سماعت جاری ہے۔ 11 رکنی فل کورٹ بینچ جسٹس سید امین الدین کی سربراہی میں معاملے کی سماعت کر رہا ہے، جبکہ درخواست گزار کی نمائندگی سینئر وکیل مخدوم علی خان کر رہے ہیں۔

latest urdu news

دورانِ سماعت جسٹس جمال خان مندوخیل نے واضح ریمارکس دیے کہ "سنی اتحاد کونسل مخصوص نشستوں کی حقدار نہیں ہے”۔ ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ سنی اتحاد کونسل پارلیمانی پارٹی تشکیل دے سکتی تھی، تاہم وہ مخصوص نشستوں کے لیے قانونی طور پر اہل نہیں۔

جسٹس مسرت ہلالی کا اہم سوال

سماعت کے دوران جسٹس مسرت ہلالی نے سوال اٹھایا کہ سنی اتحاد کونسل نے مخصوص نشستوں کا دعویٰ کیسے کیا؟ انہوں نے ریمارکس دیے کہ "جو جماعت پارلیمنٹ میں ہی نہیں، اس میں آزاد امیدوار شامل کیسے ہو سکتے ہیں؟” ان کا مزید کہنا تھا کہ آزاد امیدوار صرف کسی منتخب سیاسی جماعت میں شامل ہو سکتے ہیں۔

وکیل کا مؤقف: آزاد امیدوار شامل ہوئے

مخدوم علی خان نے موقف اپنایا کہ انتخابات کے بعد آزاد امیدواروں نے سنی اتحاد کونسل کے ساتھ شمولیت اختیار کی، اور اسی بنیاد پر مخصوص نشستوں کا مطالبہ کیا گیا۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ سنی اتحاد کونسل نے بطور جماعت انتخابات میں حصہ نہیں لیا، اور اس کے چیئرمین نے بھی آزاد حیثیت سے الیکشن لڑا تھا۔

مخصوص نشستوں پر قانونی نکات زیرِ بحث

وکیل کا کہنا تھا کہ مخصوص نشستوں پر ارکان کو ڈی نوٹیفائی کیا گیا، مگر اس سے قبل انہیں کوئی نوٹس نہیں دیا گیا، جو آئینی تقاضوں کے خلاف ہے۔ انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ وہ الیکشن کمیشن کے نوٹیفیکیشن کو غیر مؤثر قرار دے۔

اس پر جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ عدالت پہلے ہی الیکشن کمیشن کا نوٹیفیکیشن کالعدم قرار دے چکی ہے۔ انہوں نے مزید واضح کیا کہ مخصوص نشستیں متناسب نمائندگی کی بنیاد پر الاٹ کی جاتی ہیں، اور یہ معاملہ آئینی آرٹیکل 225 کے دائرہ کار میں نہیں آتا۔

نظرثانی کی قانونی حیثیت پر سوال

جسٹس مندوخیل نے پوچھا کہ اگر عدالتی اکثریت یہ سمجھے کہ نظرثانی کا فیصلہ درست ہے تو کیا ہوگا؟ وکیل مخدوم علی خان نے جواب دیا: "ایسی صورت میں نظرثانی مسترد کر دی جائے گی۔”

انہوں نے مزید مؤقف اختیار کیا کہ اگر عدالتی فیصلہ آئین و قانون سے متصادم ہو تو عدالت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کو درست کرے، تاکہ انصاف کے تقاضے پورے ہو سکیں۔

شیئر کریں:

ہمیں فالو کریں

frontpage hit counter