کیا پاکستان کو اپنے میزائلوں کے افغان نام بدلنے چاہییں؟ حامد میر کا سوال نئی بحث چھیڑ گیا

تازہ ترین خبروں اور تبصروں کیلئے ہمارا وٹس ایپ چینل جوائن کریں

سینئر صحافی حامد میر نے پاکستان اور افغانستان کے درمیان حالیہ کشیدہ تعلقات کے تناظر میں ایک نیا اور دلچسپ سوال اٹھایا ہے۔ انہوں نے تجویز دی ہے کہ پاکستان کو اپنے بیلسٹک میزائلوں جن کے نام غزنوی، غوری اور ابدالی جیسے افغان تاریخی شخصیات پر رکھے گئے ہیں پر از سر نو غور کرنا چاہیے۔

latest urdu news

حامد میر کا کہنا تھا کہ پاکستان نے ہمیشہ افغانستان کو برادر اسلامی ملک سمجھ کر احترام دیا، مگر اب حالات بدل چکے ہیں۔ آج کی افغان قیادت بھارت کے ساتھ بیٹھ رہی ہے اور پاکستان کے مفادات کے برخلاف رویہ اپنا رہی ہے۔ ایسی صورت میں پاکستان کے لیے مناسب ہے کہ وہ دفاعی ہتھیاروں پر ان شخصیات کے نام رکھے جنہیں موجودہ افغان قیادت اپنے قومی ہیرو مانتی ہے؟

انہوں نے نشاندہی کی کہ غزنوی، غوری اور ابدالی کا تاریخی پس منظر بھارتی سرزمین پر حملوں سے جڑا ہے۔ محمود غزنوی نے 11ویں صدی میں سومناتھ پر حملہ کیا، شہاب الدین غوری نے 1192 میں پرتھوی راج چوہان کو شکست دی، جب کہ احمد شاہ ابدالی نے 1761 میں پانی پت کی تیسری جنگ میں مرہٹوں کو زیر کیا۔ یہ تمام شخصیات تاریخی طور پر برصغیر میں مسلمانوں کی عسکری کامیابیوں کی علامت رہی ہیں۔

اس حوالے سے سابق سیکرٹری خارجہ اعزاز چوہدری نے رائے دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے حالیہ برسوں میں اپنے میزائل پروگرام میں نئے اور نسبتاً غیر متنازعہ نام استعمال کرنا شروع کر دیے ہیں، جیسا کہ ’’فتح‘‘ میزائل۔ انہوں نے کہا کہ "ہم نے افغانستان کو ہمیشہ بھائی سمجھا، لیکن بدقسمتی سے وہ ہمیں ایسا نہیں سمجھتے۔”

یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب پاکستان اور افغانستان کے درمیان سکیورٹی مسائل اور سرحدی کشیدگی میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، اور یہ بحث قومی بیانیے اور دفاعی پالیسی میں تبدیلی کا اشارہ دے سکتی ہے۔

شیئر کریں:

ہمیں فالو کریں

frontpage hit counter