پیپلز پارٹی کی سینئر رہنما اور سینیٹر شیری رحمان نے سیلاب سے متاثرہ لاکھوں افراد کی حالت زار پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اتنے وسیع پیمانے پر سیلابی تباہی کے باوجود کیا کوئی ایسا ہے جو ان متاثرین کے لیے سوچے؟
انہوں نے کہا کہ سیلاب سے ساڑھے چھ ملین سے زائد افراد متاثر ہوئے ہیں، خاص طور پر پنجاب کے لوگ شدید مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔
شیری رحمان نے سینیٹ اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سیلاب متاثرین امداد کے منتظر ہیں، مگر اس وقت الفاظ کی جنگ چھڑی ہوئی ہے جو مسئلے کو حل کرنے کے بجائے مسائل بڑھا رہی ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ پیپلز پارٹی کے پاس 2022 کے سیلاب کے بعد امدادی سرگرمیوں کا تجربہ موجود ہے اور انٹرنیشنل امداد کو بھیک نہیں بلکہ پاکستان کا حق سمجھنا چاہیے۔
انہوں نے حکومت کی حکمت عملی پر بھی سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ جو ملک قرضوں میں ڈوبا ہوا ہے، وہاں سیلاب متاثرین کی فوری اور مؤثر مدد کے لیے واضح حکمت عملی ہونی چاہیے۔ شیری رحمان نے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے پنجاب کے دورے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہاں وزیر اعلیٰ پنجاب کی تعریف کی گئی اور امداد بھی تقسیم کی گئی، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امدادی کاموں میں تعاون ممکن ہے۔
آئی ایم ایف نے وفاق کو سیلاب متاثرہ علاقوں میں فنڈز جاری کرنے سے روک دیا
پیپلز پارٹی کی سینیٹر نے کہا کہ سندھ میں ہاری کارڈ متعارف کرایا گیا ہے جو دیگر متاثرہ علاقوں میں بھی نافذ ہونا چاہیے تاکہ امداد کی تقسیم میں شفافیت اور موثر طریقہ کار یقینی بنایا جا سکے۔ انہوں نے آئی ایم ایف سے کلائمٹ فنڈنگ کے لیے درخواست کو پاکستان کا جائز حق قرار دیا اور کہا کہ اگر پنجاب کے عوام کے لیے ریلیف کی بات پر اعتراض ہوتا ہے تو یہ بالکل غیر مناسب ہے، کیونکہ پنجاب کسی کی جاگیر نہیں ہے۔
شیری رحمان نے پنجاب حکومت پر الزام لگاتے ہوئے کہا کہ علی حیدر گیلانی جیسے افراد کی سکیورٹی واپس لے لی گئی ہے حالانکہ وہ پہلے بھی اغوا ہو چکے ہیں۔ انہوں نے پیپلز پارٹی کو سینیٹ کی سب سے بڑی جماعت قرار دیتے ہوئے کہا کہ انہیں معمولی نہیں سمجھا جانا چاہیے۔