اسلام آباد – سپریم کورٹ میں ججز ٹرانسفر اور سینیارٹی سے متعلق اہم آئینی کیس کی سماعت کے دوران جسٹس محمد علی مظہر نے واضح کیا کہ عدلیہ میں ڈیپوٹیشن یا کسی جج کو دوسری عدالت میں ضم کرنے کا کوئی اصول موجود نہیں، جبکہ درخواست گزار کے وکیل نے آئینی نکات اور سول سروس سے موازنہ کرتے ہوئے سینیارٹی متاثر ہونے پر تحفظات ظاہر کیے۔
پانچ رکنی آئینی بینچ کی سربراہی جسٹس محمد علی مظہر کر رہے ہیں۔ درخواست گزار ججز کے وکیل بیرسٹر صلاح الدین احمد نے اپنے دلائل میں کہا کہ آئین کے آرٹیکل 200 کی وضاحت صرف اس کے ذیلی سیکشن (3) پر لاگو ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر کیڈر الگ ہو تو سینیارٹی متاثر ہوتی ہے، جبکہ عدلیہ میں ڈیپوٹیشن کا کوئی رواج نہیں۔
جسٹس شکیل احمد نے تبصرہ کیا کہ بھارت میں ججز کی رضامندی لیے بغیر تبادلہ کیا جاتا ہے اور سینیارٹی متاثر نہیں ہوتی۔ اس پر وکیل نے کہا کہ اگر رضامندی شامل ہو تو سینیارٹی میں تبدیلی ممکن ہو سکتی ہے۔
سماعت میں ایڈووکیٹ جنرل پنجاب، امجد پرویز نے 1947 سے 1976 تک کی عدالتی ٹرانسفر ہسٹری عدالت کے سامنے رکھی، جس پر عدالت نے انہیں آئندہ سماعت میں دلائل دینے کی ہدایت کی۔
دورانِ سماعت آئینی تقرری، جج کی رضامندی، صدرِ مملکت کے اختیارات، اور جوڈیشل کونسل کی سفارشات پر بھی تفصیلی بحث ہوئی۔ جسٹس مظہر نے کہا کہ صدر کے اختیار سے پہلے جو عدالتی پراسیس ہوتا ہے، اس پر بات نہیں ہوئی، جبکہ آئین کا ہر لفظ ایک مقصد رکھتا ہے۔
بیرسٹر صلاح الدین نے اسلام آباد ہائی کورٹ رولز میں کی گئی ترامیم کا بھی ذکر کیا جن کے تحت ٹرانسفر شدہ ججز کو انتظامی کمیٹی میں شامل کیا گیا۔ اس پر اٹارنی جنرل نے اعتراض کیا کہ یہ ہائی کورٹ کا اندرونی معاملہ ہے اور کیس کا حصہ نہیں۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ یہ ٹرانسفر کے بعد کی پیش رفت ہے جس سے عدالت کو آگاہ کیا جا رہا ہے۔
سماعت کے آخر میں بیرسٹر صلاح الدین احمد نے اپنے دلائل مکمل کیے، جس کے بعد لاہور بار کے وکیل حامد خان روسٹرم پر آئے اور اپنے جواب الجواب کا آغاز کیا۔ عدالت نے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کر دی۔
یاد رہے کہ یہ کیس پاکستان میں عدلیہ کی سینیارٹی، ججز کے تبادلے اور ان کے آئینی تحفظات سے متعلق اہم قانونی و آئینی نکات کا احاطہ کرتا ہے۔ اس کا فیصلہ مستقبل میں عدلیہ کے انتظامی ڈھانچے پر گہرے اثرات ڈال سکتا ہے۔